عن فضالة بن عبيد رضي الله عنه قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد إذ دخل رجل فصلى فقال: اللهم اغفر لي وارحمني فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عجلت أيها المصلي إذا صليت فقعدت فاحمد الله بما هو أهله وصل علي ثم ادعه قال: ثم صلى رجل آخر بعد ذلك فحمد الله وصلى على النبي صلى الله عليه وسلم فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: أيها المصلي ادع تجب (سنن الترمذي، الرقم: 3476 وقال: هذا حديث حسن)
حضرت فضالہ بن عبید رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص (مسجد میں) آیا۔ اس نے نماز پڑھی، پھر اس نے دعا کی: اے الله! مجھے بخش دیجیئے اور مجھ پر رحم فرمائیے، تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس سے کہا: اے نماز پڑھنے والے! تم نے (دعا کرنے میں) جلدی کی۔ جب تم نماز سے فارغ ہو کر (دعا کرنے کے لیے) بیٹھ جاؤ، تو پہلے الله تعالیٰ کی ان کی شان کے مطابق تعریف کرو اور مجھ پر درود بھیجو، پھر الله تعالیٰ سے دعا کرو۔ راوی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ایک دوسرے شخص نے نماز ادا کی۔ نماز پڑھنے کے بعد اس نے دعا کی۔ (دعا میں) اس نے الله تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجا، تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اے نماز پڑھنے والے! دعا کرو، تمہاری دعا قبول کی جائےگی (کیونکہ تم نے دعا کے آداب کے مطابق دعا کی)۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا اپنی چادر جلا دینا
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے جسم پر زعفرانی رنگ کی چادر دیکھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے سوال کیا: تم یہ کیا اوڑھے ہوئے ہو؟
میں سمجھ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رنگ کی چادر پسند نہیں آئی؛ چنانچہ جب میں گھر پہنچا، تو میں نے دیکھا کہ آگ جل رہی ہے، میں نے فوراً چادر اس میں پھینک دی۔
دوسرے دن جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، تو آپ نے پوچھا: وہ چادر کہاں ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میں نے اس کو نذرِ آتش کر دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے وہ چادر گھر کی کسی عورت کو کیوں نہیں دے دی؟ عورتوں کے لیے اس رنگ کے کپڑے پہننا جائز ہے۔ (ابو داؤد)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کو دیکھ کر اس قدر بے چین ہو گئے کہ جیسے ہی ان کو موقع ملا، انہوں نے فوراً اس چادر کو نذرِ آتش کر دیا (جلا دیا)۔ انہوں نے اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں کہ ہم اس کو کسی اور جگہ استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ان کی جگہ ہوتے، تو اس کو رکھنے کے لیے بہانے تلاش کرتے یا اس کے استعمال کا کوئی اور موقع ڈھونڈتے۔
درخت کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنا
حضرت یعلیٰ بن مرّہ ثقفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ دورانِ سفر ہم نے ایک جگہ قیام کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ آرام فرمانے لگے۔ کچھ دیر کے بعد ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سایہ میں ڈھانپ لیا، پھر وہ اپنی جگہ واپس چلا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، تو میں نے یہ تعجب خیز واقعہ بیان کیا، تو آپ نے فرمایا کہ اس درخت نے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی تھی تاکہ وہ میرے پاس آکر سلام کرے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اجازت دی (کہ وہ میرے پاس آئے اور مجھے سلام کرے)۔ (مسند احمد)
يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ
Source: