باغِ محبّت(نویں قسط)‏

بسم الله الرحمن الرحيم

اللہ تعالیٰ اور مخلوق کی امانت ادا کرنے کی اہمیّت

زمانۂ جاہلیت اور آغازِ اسلام میں عثمان بن طلحہ خانہ کعبہ کے متولّی تھے اور خانۂ کعبہ کی چابی کے ذمہ دار تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ ہر ہفتے پیر اور جمعرات کے دن خانۂ کعبہ کا دروازہ کھولتے تھے؛ تاکہ لوگ اس کے اندر داخل ہوں اور عبادت کریں۔

ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک روز اہلِ مکہ بیت اللہ میں داخل ہو رہے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس میں داخل ہونے کا ارادہ  فرمایا؛لیکن عثمان بن طلحہ نے آپ کو روک دیا اور آپ کو سخت سست کہا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بد کلامی اور بدسلوکی پر صبر کیا پھراس سے کہا: اے عثمان ! ایک دن ایسا آئےگا کہ یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جس کو چاہوں گا یہ چابی دوں گا۔ عثمان بن طلحہ نے جواب دیا: اس دن قریش ہلاک و برباد ہوجائیں گے اور وہ دن قریش کی بڑی ذلّت کا دن ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں؛ بلکہ اس دن قریش باعزّت اور بامراد ہوں گے۔ عثمان بن طلحہ کہتے ہیں کہ میرے دل میں ان کی بات بیٹھ گئی اور مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے وہ ایک نہ ایک دن ضرور ہو کر رہےگا۔

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہجرت کر کے مدینہ منوّرہ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد چند سالوں تک مسلمانوں اور قریش کے درمیان سخت لڑائیاں جاری رہیں۔

 اسی دوران ایک دن عثمان بن طلحہ کے دل میں اسلام قبول کرنے کا خیال پیدا ہوا، چنانچہ انہوں نے سنہ۷ ہجری میں مدینہ منوّرہ کا رُخ کیا؛ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مشرّف با سلام ہوں۔

اگلے سال یعنی سنہ۸ ہجری میں جب مکّہ مکرّمہ فتح ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ کو حکم دیا کہ وہ جا کر خانۂ کعبہ کی چابی لے کر آ جائے؛ کیوں کہ انہیں کے خاندان کے لوگ خانۂ کعبہ کی حفاظت کرتے تھے اور انہیں کے پاس خانۂ کعبہ کی چابی رہتی تھی۔

جب عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ چابی لے کر حاضر ہوئے، تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانۂ کعبہ کا دروازہ کھولا اور اس کے اندر تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، تو حضرت عبّاس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے خواہش ظاہر کی کہ انہیں بیت اللہ کی چابی دی جائے۔

لیکن بیت اللہ کے اندر ہوتے ہوئے یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ” اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا “ (بےشک اللہ تعالیٰ تم کو اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ امانتیں ان کے اہل کو ادا کرو)، جس میں آپ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ خانۂ کعبہ کی چابی عثمان بن طلحہ اور ان کے خاندان والوں کے حوالے کر دی جائے۔

 چنانچہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی چابی عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دی اور ان سے فرمایا کہ یہ چابی ہمیشہ تمہارے خاندان میں رہےگی۔ تم سے یہ چابی ظالم کے علاوہ کوئی نہیں چھینےگا۔

 جب عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ چابی لے کر واپس جانے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور فرمایا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ ایک دن یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جس کو چاہوں گا دے دوں گا۔ عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات یاد آ گئی، تو میں نے جواب دیا: آپ نے ضرور فرمایا تھا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔

آیتِ سابقہ سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ ہر آدمی پر لازم ہے کہ امانت اس کے حق دار کو ادا کرے۔ نیز احادیثِ مبارکہ میں بھی اس بات کی تاکید آئی ہے کہ “جو امانتیں اس کے قبضے میں ہیں اس کو چاہیئے کہ وہ ان کے اہل کو ادا کرے۔ “

 یہاں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ امانت کی ادائیگی کا تعلق صرف مال سے نہیں ہے؛ بلکہ اس کے اندر ہر قسم کی ذمہ داری شامل ہے ۔ امام،مؤذن، متولّی، استاذ، شاگرد، مالک، مزدور،بیچنے والا، خریدنے والا، شوہر، بیوی ،والدین، بچے، پڑوسی اور ساتھی سب کے ذمّے امانتیں اور حقوق ہیں اور قیامت کے دن ان سب سے ان حقوق اور امانتوں کے بارے میں سوال کیا جائےگا اور ان تمام امانتوں میں سے سب سے بڑی امانت “دین” کی امانت ہے۔ دین تمام امانتوں کی جڑ ہے جو تمام دوسری امانتوں کی ادائیگی کا طریقہ سکھاتا ہے۔ اور اس امانت کی ادائیگی اسی وقت ہوگی، جب ہم پورے طور پر زندگی کے تمام امور میں  شریعت کے احکام کی پیروی کریں گے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو شریعت کے مطابق تمام امانتیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=16706


Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۱۰

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط دوم حضرت مولانا اشرف علی …