عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى علي في كتاب لم تزل الملائكة تستغفر له ما دام اسمي في ذلك الكتاب (المعجم الأوسط للطبراني، الرقم: ۱۸۳۵، وسنده ضعيف كما في كشف الخفاء، الرقم: ۲۵۱۸)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی کتاب میں میرا نام لکھے، فرشتے اس وقت تک لکھنے والے پر درود بھیجتے رہتے ہیں، جب تک میرا نام اس کتاب میں رہے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ہر چیز میں اتّباعِ سنّت
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا کہ قرآن شریف میں مقیم کی نماز کا بھی ذکر ہے اور خوف کی نماز کا بھی، مسافر کی نماز کا ذکر نہیں۔
انہوں نے فرمایا کہ برادر زادہ! اللہ جلّ شانہ نے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا۔ ہم لوگ انجان تھے، کچھ نہیں جانتے تھے، بس جو ہم نے ان کو کرتے دیکھا ہے، وہ کریں گے۔
نوٹ: حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
مقصود یہ ہے کہ ہر مسئلہ کا صراحاۃ ً قرآن شریف میں ہونا ضروری نہیں۔ عمل کے واسطے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جانا کافی ہے۔ خود حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھے قرآن شریف عطا ہوا اور اس کے برابر اور احکام دئے گئے۔ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ پیٹ بھرے لوگ اپنے گدّوں پر بیٹھ کر کہیں گے کہ بس قرآن شریف کو مضبوط پکڑ لو جو اس میں احکام ہیں، ان پر عمل کرو۔ (فضائل اعمال، ص ۱۰۷)
حضرت عمر رضی اللہ کا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرنا
صاحب احیاء نے لکھا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو رہے تھے اور یوں کہہ رہے تھے کہ
یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ایک کھجور کا تنہ جس پر سہارا لگا کر آپ منبر بننے سے پہلے خطبہ پڑھا کرتے تھے، پھر جب منبر بن گیا اور آپ اس پر تشریف لے گئے، تو وہ کھجور کا تنہ آپ کے فراق سے رونے لگا، یہاں تک کہ آپ نے اپنا دستِ مبارک اس پر رکھا جس سے اس کو سکون ہوا (یہ حدیث کا مشہور قصہ ہے)، یا رسول اللہ آپ کی امّت آپ کے فراق سے رونے کی زیادہ مستحق ہے بنسبت اس تنے کے (یعنی امّت اپنے سکون کے لئے توجہ کی زیادہ محتاج ہے)۔
یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کا عالی مرتبہ اللہ کے نزدیک اس قدر اونچا ہوا کہ اس نے آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کی فضیلت اللہ کے نزدیک اتنی اونچی ہوئی کہ آپ سے مطالبہ سے پہلے معافی کی اطلاع فرما دی؛ چنانچہ ارشاد فرمایا عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے۔ تم نے ان منافقوں کو جانے کی اجازت دی ہی کیوں۔
یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کا علوِّ شان اللہ کے نزدیک ایسا ہے کہ آپ اگر چہ زمانہ کے اعتبار سے آخر میں آئے؛ لیکن انبیاء کی میثاق میں آپ کو سب سے پہلے ذکر کیا گیا۔ چنانچہ ارشاد ہے وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ الآیۃ۔
یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کی فضیلت کا اللہ کے یہاں یہ حال ہے کہ کافر جہنم میں پڑے ہوئے اس کی تمنا کریں گے کہ کاش آپ کی اطاعت کرتے اور کہیں گے يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا۔
یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ اگر حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ جل شانہ نے یہ معجزہ عطا فرمایا ہے کہ پتھر سے نہریں نکال دیں، تو یہ اس سے زیادہ عجیب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی انگلیوں سے پانی جاری کر دیا (کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ مشہور ہے)۔
یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان اگر حضرت سلیمان علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کہ ہَوا ان کو صبح کے وقت میں ایک مہینہ کا راستہ طے کرا دے اور شام کے وقت میں ایک مہینہ کا طے کرا دے، تو یہ اس سے زیادہ عجیب نہیں ہے کہ آپ کا براق رات کے وقت میں آپ کو ساتویں آسمان سے بھی پرے لے جائے اور صبح کے وقت آپ مکہ مکرمہ واپس آجائیں صَلّی اللهُ عَلَیْکَ اللہ تعالیٰ ہی آپ پر درود بھیجے۔
یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان اگر حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ عطا فرمایا کہ وہ مردوں کو زندہ فرما دیں، تو یہ اس سے زیادہ عجیب نہیں کہ ایک بکری جس کے گوشت کے ٹکڑے آگ میں بھون دیئے گئے ہوں وہ آپ سے یہ درخواست کرے کہ آپ مجھے نہ کھائیں اس لئے کہ مجھ میں زہر ملا دیا گیا ہے۔
یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان حضرت نوح علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی قوم کے لئے یہ ارشاد فرمایا رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا اے رب کافروں میں سے زمین پر بسنے والا کوئی نہ چھوڑ۔ اگر آپ بھی ہمارے لئے بد دعا کر دیتے تو ہم میں سے ایک بھی باقی نہ رہتا، بے شک کافرروں نے آپ کی پشتِ مبارک کو روندا (کہ جب آپ نماز میں سجدہ میں تھے آپ کی پشتِ مبارک پر اونٹ کا بچہ دان رکھ دیا تھا) اور غزوۂ احد میں آپ کے چہرۂ مبارک کو خون آلودہ کیا، آپ کے دندانِ مبارک کو شہید کیا اور آپ نے بجائے بد دعا کے یوں ارشاد فرمایا اَللّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِىْ فَاِنَّهُمْ لَايَعْلَمُوْنَ۔ اے اللہ میری قوم کو معاف فرما کہ یہ لوگ جانتے نہیں (جاہل ہیں)۔
یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کی عمر کے بہت تھوڑے سے حصے میں (کہ نبوّت کے بعد تیئیس ہی سال ملے) اتنا بڑا مجمع آپ پر ایمان لایا کہ حضرت نوح علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی طویل عمر (ایک ہزار برس) میں اتنے آدمی مسلمان نہ ہوئے (کہ حجۃ الوداع میں ایک لاکھ چوبیس ہزار تو صحابہ رضی اللہ عنہم تھے اور جو لوگ غائبانہ مسلمان ہوئے حاضر نہ ہو سکے ان کی تعداد تو اللہ ہی کو معلوم ہے) آپ پر ایمان لانے والوں کی تعداد بہت زیادہ سے زیادہ ہے (بخاری کی مشہور حدیث عُرِضَتْ عَلَىَّ الْاُمَمُ میں ہے رَاَيْتُ سَوَادًا كَثِيْرًا سَدَّ الْاُفُق کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امّت کو اتنی کثیر مقدار میں دیکھا کہ جس نے سارے جہاں کو گھیر رکھا تھا) اور حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لانے والے بہت تھوڑے ہیں (قرآن پاک میں ہے وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ)۔
یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان اگر آپ اپنے ہمجنسوں ہی کے ساتھ نشست وبرخواست فرماتے تو آپ ہمارے پاس کبھی نہ بیٹھتے۔ اور اگر آپ نکاح نہ کرتے مگر اپنے ہی ہم مرتبہ سے تو ہمارے میں سے کسی کے ساتھ بھی آپ کا نکاح نہ ہو سکتا تھا۔ اور اگر آپ اپنے ساتھ کھانا نہ کھلاتے مگر اپنے ہی ہمسروں کو تو ہم میں سے کسی کو اپنے ساتھ کھانا نہ کھلاتے۔ بیشک آپ نے ہمیں اپنے پاس بٹھایا، ہماری عورتوں سے نکاح کیا ہمیں اپنے ساتھ کھانا کھلایا، بالوں کے کپڑے پہنے۔ (عربی) گدھے پر سواری فرمائی اور اپنے پیچھے دوسرے کو بٹھایا۔ اور زمین پر (دسترخوان بچھا کر) کھانا کھایا اور کھانے کے بعد اپنی انگلیوں کو (زبان سے) چاٹا اور یہ سب امور آپ نے تواضع کے طور پر اختیار فرمائے صَلَّی اللهُ عَلَیْکَ وَسَلَّمَ۔ اللہ تعالیٰ ہی آپ پر درود وسلام بھیجے۔ (فضائل درود شریف، ص ۱۸۳ تا ۱۸۷)
يَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ