غسل کرنے کا مسنون طریقہ
(۱) سر پر تین مرتبہ پانی ڈالنا۔[۱]
عن عائشة قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أراد أن يغتسل من الجنابة بدأ فغسل يديه قبل أن يدخلهما الإناء ثم غسل فرجه ويتوضأ وضوءه للصلاة ثم يشرب شعره الماء ثم يحثي على رأسه ثلاث حثيات (سنن الترمذي، الرقم: ۱٠٤)[۲]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسلِ جنابت کا ارادہ فرماتے تھے، تو پہلے اپنے ہاتھوں کو دھوتے تھے (پہلے ہاتھوں کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھوتے تھے) پھر اپنی شرم گاہ دھوتے تھے اور نماز والا وضو فرماتے تھے پھر اپنے بالوں کو تر کرتے تھے، اس کے بعد اپنے سرپر تین لب پانی ڈالتے تھے۔
(۲) بدن کے دائیں حصّہ پر اوپر سے لیکر نیچے تک تین مرتبہ پانی بہانا پھر بائیں حصّہ پر اوپر سے لیکرنیچے تک تین مرتبہ پانی بہانا۔ اس بات کا پورا خیال رکھا جائے کہ پانی بدن کے ایک ایک حصّہ تک پہونچ جائے۔ کوئی حصّہ خشک نہ رہے۔ [۳]
(۲) اگر کوئی فرض غسل کر رہا ہو، تو وہ اس بات کا لحاظ کرے کہ پانی بدن کے ہر حصّہ تک پہونچ جائے، خاص طور پر منھ میں، ناک کے اندر، آنکھوں کے کناروں میں اور ناف کے اندر پانی پہونچانے کا اہتمام کرے۔ بدن کا کوئی عضو ہرگز خشک نہ رہے، اس لیے کہ اگر بال کے برابر بھی کوئی حصّہ خشک رہ گیا، تو فرض غسل مکمل نہیں ہوگا۔ [٤]
عن علي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من ترك موضع شعرة من جنابة لم يغسلها فعل بها كذا وكذا من النار قال علي فمن ثم عاديت رأسي ثلاثا وكان يجز شعره (سنن أبي داود، الرقم: ۲٤۹)[۵]
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص غسل جنابت میں ایک بال کے برابر بھی جگہ چھوڑےگا، اس حصّہ کے ساتھ جہنم میں ایسا ایسا کیا جائےگا (سزا دی جائےگی) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس وجہ سے میں اپنے سر پر بال نہیں رکھتا ہوں (راوی کہتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ تین بار دہرایا) راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل بیان کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے سر کے بال کا حلق کرتے تھے (اس اندیشہ سے کہ غسل میں کوئی بال خشک نہ رہ جائے جس کی وجہ سے غسل مکمل نہیں ہوتا)۔
[۱] (بادئا بمنكبه الأيمن ثم الأيسر ثم رأسه) على (بقية بدنه مع دلكه) ندبا وقيل يثني بالرأس وقيل يبدأ بالرأس وهو الأصح وظاهر الرواية والأحاديث قال في البحر وبه يضعف تصحيح الدرر
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله: (قوله وظاهر الرواية) كذا عبر في النهر والذي في البحر وغيره التعبير بظاهر الهداية (قوله والأحاديث) قال الشيخ إسماعيل وفي شرح البرجندي وهو الموافق لعدة أحاديث أوردها البخاري في صحيحه اهـ فافهم (قوله تصحيح الدرر) هو ما مشى عليه المصنف في متنه هنا (رد المحتار ۱/۱۵۹)
[۲] قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح
[۳] قال أبو عيسى: هذا حديث حسن صحيح
[٤] (وأما) ركنه فهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج مرة واحدة حتى لو بقيت لمعة لم يصبها الماء لم يجز الغسل وإن كانت يسيرة (بدائع الصنائع ۱/۲٦۷)
ويجب إيصال الماء إلى داخل السرة وينبغي أن يدخل أصبعه فيها للمبالغة كذا في محيط السرخسي (الفتاوى الهندية ۱/۱٤)
[۵ سكت الحافظ عن هذا الحديث في الفصل الثاني من هداية الرواة (۱/۲۳۵) فالحديث حسن عنده