سوال:- اگر کوئی آدمی کسی غریب مسلمان کو کچھ پیسے ہدیہ یا قرض کے طور پر دے دے اور دیتے وقت وہ زکوٰۃ کی نیّت کرے، تو کیا اس طرح دینے سے اس کی زکوٰۃ ادا ہو جائےگی؟
الجواب حامدًا و مصلیًا
اگر کوئی آدمی کسی غریب مسلمان کو ہدیہ یا قرض دے دے اور دیتے وقت وہ زکوٰۃ کی نیّت کرے، تو اس سے اس کی زکوٰۃ ادا ہو جائےگی۔
البتہ اگر وہ قرض کے طور پر پیسے دے اور زکوٰۃ کی نیت کرے، تو اس کے لئے اس مال کا واپس لینا جائز نہیں ہوگا اور اگر وہ اس مال کو واپس لے لے، تو وہ گنہگار ہوگا۔
نوٹ:- اگر زکوٰۃ دینے والے نے زکوٰۃ کی رقم واپس لے لی، تو اس کے لئے واپس لی ہوئی رقم کا استعمال جائز نہیں ہوگا؛ بلکہ اس پر واجب ہوگا کہ وہ اس واپس لی ہوئی رقم کو دوبارہ کسی غریب مسلمان کو زکوٰۃ کی نیت سے دے دے۔
فقط واللہ تعالی اعلم
(وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء
قال العلامة ابن عابدين – رحمه الله -: (قوله نية) أشار إلى أنه لا اعتبار للتسمية فلو سماها هبة أو قرضا تجزيه في الأصح (رد المحتار ۲/۲٦۸)
والعبرة لنية الدافع لا لعلم المدفوع إليه حتى لو قال المحترم وهبت لك هذا الشيء أو أقرضتك وينوي به الزكاة وقع عن الزكاة (الفتاوى البزازية ۱/٤۱)
ومن أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح هكذا في البحر الرائق ناقلا عن المبتغى والقنية (الفتاوى الهندية ۱/۱۷۱)
دار الافتاء، مدرسہ تعلیم الدین
اسپنگو بیچ، ڈربن، جنوبی افریقہ