(۱) قبر پر مٹی ڈالنے وقت سر کی طرف سے ابتدا کرنا مستحب ہے۔ دونوں ہاتھوں سے مٹی ڈالنا ایک ہاتھ سے مٹی ڈالنے سے بہتر ہے۔ قبر کو مٹی سے بھرنے کے لیے بیلچہ کا استعمال بھی جائز ہے۔
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى على جنازة، ثم أتى قبر الميت فحثى عليه من قبل رأسه ثلاثا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”ایک شخص کی نمازِ جنازہ پڑھائی پھر اس کی قبر پر آئے اور اس کے سر کی طرف سے تین مرتبہ اس کی قبر پر مٹی ڈالی۔“
(۲) قبر پر تین بار مٹی ڈالنا مستحب ہے۔
(۳) پہلی بار مٹی ڈالتے وقت پڑھے،
منها خلقناكم
اسی سے (مٹی سے) ہم نے تمہیں پیدا کیا
اور دوسری بار پڑھے،
وفيها نعيدكم
اور اسی میں (مٹی میں) ہم تمہیں لوٹا ئیں گے
اور تیسری بار پڑھے،
ومنها نخرجكم تارة أخرى
اور اسی سے (مٹی سے) ہم تمہیں دوبارہ اٹھائیں گے۔
تدفین کے بعد قبر کے پاس ٹھہرنا
(۱) تدفین کے بعد مستحب یہ ہے کہ میّت کے سر ہانے سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتیں (المفلحون تک) آہستہ پڑھی جائیں اور میّت کے پیر کی طرف سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں (آمن الرسول سے آخر تک) پڑھی جائیں۔
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول إذا مات أحدكم فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره وليقرأ عند رأسه بفاتحة الكتاب وعند رجليه بخاتمة سورة البقرة في قبره (مجمع الزوائد، الرقم: ٤۲٤۲)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کسی کا انتقال ہوجائے، تو اس کو روکے مت رکھو (تدفین میں تاخیر مت کرو)؛ بلکہ اس کو جلدی سے دفن کردو۔اور اس کے سر کے پاس سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتیں اور اس کے پیر کے پاس سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھی جائیں۔
(۲) تدفین کے بعد تھوڑی دیر قبر کے پاس ٹھہرنا مستحب ہے اور مرحوم کے لیے مغفرت کی دعا کرانی چاہیئے، نیز اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیئے کہ اس کےلیے قبر میں فرشتوں کے سوالوں کا جواب دینا آسان فرمائے۔
عن عثمان بن عفان رضي الله عنه قال كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال استغفروا لأخيكم وسلوا له التثبيت فإنه الآن يسأل (سنن أبي داود، الرقم: ۳۲۲۳)
حضرت عثمان بن عفّان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میّت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے، تو (کچھ دیر) ٹھہرتے اور فرماتے: اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور اس کے لیے ثبات قدمی کی دُعا کرو؛ کیوں کہ اب اس سے سوال کیا جائےگا۔
وعن عمرو بن العاص رضي الله عنه قال فإذا أنا مت فلا تصحبني نائحة ولا نار فإذا دفنتموني فشنوا علي التراب شنا ثم أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها حتى أستأنس بكم وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي (صحيح مسلم، الرقم: ۱۲۱)
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب میرا انتقال ہو جائے، تو کوئی نوحہ کرنے والی عورت میرے (جنازہ کے) ساتھ نہ ہو اور نہ ہی آگ ساتھ ہو۔ جب تم مجھے دفن کر دو، تو میری قبر پر اچھی طرح مٹی ڈال دینا پھر میری قبر کے ارد گرد اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے؛ تاکہ میں تم سے انس حاصل کروں اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے قاصدوں کو (منکر نکیر کو) کیا جواب دیتا ہوں۔
(۳) تدفین کے بعد قبلے کی طرف رخ کر کے ہاتھوں کو اٹھانا اور میّت کے لیے دعا کرنا مستحب ہے۔
وفي حديث بن مسعود رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في قبر عبد الله ذي النجادين الحديث وفيه فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه أخرجه أبو عوانة في صحيحه(فتح البارى ۱٤۸/۱۱)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبد اللہ ذو البجادین کی تدفین سے فارغ ہو گئے، تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف رخ کر کے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا (اور دعا کی)۔“
(۴) تدفین کے بعد انفرادی طور پر پست آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور اس کا ثواب میّت کو پہونچانا جائز ہے۔
نوٹ: میّت کے لیے ایصالِ ثواب کے مختلف طریقے ہیں : قرآن مجید کی تلاوت کرنا، غریبوں کو کھانا کھلانا، صدقہ کرنا، اس کی طرف سے استغفار کرنا یا کوئی بھی نیک کام کرنا اور اس کا ثواب میّت کو پہنچانا۔
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=3792