عن أنس بن مالك خادم النبي صلى الله عليه وسلم قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن أقربكم مني يوم القيامة في كل موطن أكثركم علي صلاة في الدنيا من صلى علي في يوم الجمعة وليلة الجمعة قضى الله له مائة حاجة سبعين من حوائج الآخرة وثلاثين من حوائج الدنيا ثم يوكل الله بذلك ملكا يدخله في قبره كما يدخل عليكم الهدايا يخبرني من صلى علي باسمه ونسبه إلى عشيرته فأثبته عندي في صحيفة بيضاء (شعب الإيمان، الرقم: 2773، وسنده ضعيف كما في القول البديع صـ 329)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ہر مرحلہ میں وہ شخص مجھ سے سب سے زیادہ قریب ہوگا جو دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجتا تھا۔ جو شخص جمعہ کی شب اور جمعہ کے دن مجھ پر درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی سو (۱۰۰) ضرورتیں پوری کریں گے: ستر (۷۰) ضرورتیں اس کی اُخروی زندگی کے بارے میں اور تیس (۳۰) ضرورتیں اس کی دُنیوی زندگی کے متعلق، پھر اس کے درود پڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس درود پر ایک فرشتے کو مقرر کر دیتے ہیں، جو اس کو میرے پاس قبر میں لے کر آتا ہے جس طرح تمہارے پاس تحفے اور ہدایا لائے جاتے ہیں اور فرشتہ درود شریف پڑھنے والے کا نام اور خاندان کی وضاحت کے ساتھ میرے سامنے پیش کرتا ہے، پھر میں اس کو (درود کو) ایک سفید کاغذ میں محفوظ کر لیتا ہوں۔
نوٹ:- امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہ حدیث “قبروں میں انبیائے کرام علیہم السلام کے زندہ رہنے کا بیان” کے تحت ذکر کی ہے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی محبّت
صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا؛ تاکہ وہ مکہ مکرمہ میں قریش سے بات چیت کریں۔
جب حضرت عثمان رضی الله عنہ مکہ مکرمہ روانہ ہوئے، تو بعض صحابۂ کرام رضی الله عنہم کہنے لگے کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کو ہم سے پہلے بیت الله کے طواف کا موقع مل گیا۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہونچی، تو آپ نے فرمایا کہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ میرے بغیر بیت الله کا طواف کریں گے۔
جب حضرت عثمان رضی الله عنہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، تو ابان بن سعید نے ان کو اپنی پناہ میں لے لیا اور ان سے کہا: تم جہاں چاہو، آزادی سے گھومو۔ کوئی تمہیں ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
حضرت عثمان رضی الله عنہ نے چند دن مکہ مکرمہ میں گزارے اور مکہ مکرمہ کے سرداروں سے ملے، ابو سفیان وغیرہ سے گفتگو کی۔
جب آپ لوٹنے والے تھے، تو قریش نے خود ہی یہ پیش کش کی کہ جب تم مکہ مکرمہ میں آئے ہو، تو لوٹنے سے پہلے خانۂ کعبہ کا طواف کر لو۔
حضرت عثمان رضی الله عنہ نے جواب دیا کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بغیر ہرگز طواف نہیں کروں گا۔
قریش کو یہ جواب بہت ناگوار لگا اور انہوں نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو مکہ مکرمہ میں اپنے پاس روک لیا۔
اُدھر مسلمانوں کو کسی نے خبر دے دی کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ شہید کر دیئے گئے۔
جوں ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بات سنی، تو آپ نے فوراً تمام صحابۂ کرام رضی الله عنہم سے اس بات پر بیعت لی کہ جب تک جان میں جان ہے قریش سے قتال کریں گے اور راہِ فرار اختیار نہیں کریں گے۔
جب قریش کو یہ معلوم ہوا، تو ان کے اوپر خوف طاری ہو گیا اور انہوں نے فوراً حضرت عثمان رضی الله عنہ کو چھوڑ دیا۔ (کنز العمال، الرقم: ۳۰۱۵۲، مسند احمد ،الرقم:۱۸۹۱۰)
اس واقعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کتنی زیادہ محبت تھی کہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بغیر طواف کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ