بسم الله الرحمن الرحيم
اسلام کس چیز کی دعوت دیتا ہے؟
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں جب لوگ مشرّف باسلام ہونے لگے اور مختلف علاقوں میں اشاعتِ اسلام کی خبر پہونچنے لگی، تو بنو تمیم کے سردار اکثم بن صیفی رحمہ اللہ کے دل میں اسلام کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہوا، چناں چہ انہوں نے اپنے قبیلے کے دو آدمیوں کو منتخب کر کے مدینہ منوّرہ بھیجا؛ تاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دینِ اسلام کے بارے میں تحقیق کر کے انہیں صورتِ حال سے مطلع کریں۔
یہ دونوں قاصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے سفر کا مقصد بیان کیا۔ اس کے بعد انہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے سردار کے دونوں سوالوں کو پیش کیا۔ انہوں نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ اور آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟
نبی کریم صلی اللہ علی وسلم نے جواب دیا: میں محمد بن عبد اللہ ہوں اور اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ نحل کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۹۰﴾
”بے شک اللہ تعالیٰ عدل (انصاف) اور احسان اور اہلِ قرابت کو دینے کا حکم فرماتے ہیں اور کھلی برائی (بے حیائی) اور مطلق برائی اور ظلم کرنے سے منع فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ تم کو اس لیے نصیحت فرماتے ہیں کہ تم نصیحت قبول کرو۔“
جب ان دونوں قاصدوں نے اس آیتِ کریمہ کو سُنا، تو اس کے جامع معانی سے متأثر ہوئے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ہمیں یہ آیت پھر سنایئے؛ تاکہ ہم اس کو یاد کر سکیں۔ اس کے بعد دونوں قاصد اکثم بن صیفی کے پاس واپس آئیں اور اپنی ملاقات کی کارگزاری سنائی۔ انہوں نے اپنے سردار اکثم بن صیفی کو بتلایا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے نسب کے بارے میں پوچھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی، صرف اپنا نام اور اپنے والد کا نام بیان کر دینے پر اکتفا کیا، آپنے اپنے عالی نسب کا تذکرہ بالکل نہیں فرمایا، جیسا کہ عام بادشاہوں اور حکم رانوں کا طریقہ ہے۔ مگر جب ہم نے دوسروں سے آپ کے نسب کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب مبارک بہت ہی عالی تھا اور آپ شریف خاندان میں سے تھے۔ اس کے بعد دونوں قاصدوں نے اکثم بن صیفی کے سامنے اس آیتِ کریمہ کی تلاوت کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے تلاوت فرمائی تھی۔
آیت سنتے ہی اکثم رحمہ اللہ نے کہا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص مکارمِ اخلاق کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور بُرے اور رذیل اخلاق سے روکتے ہیں، پھر اپنی قوم کو خطاب کر کے کہا: تم کو چاہیئے کہ اس آدمی کے دین میں جلدی داخل ہو جاؤ اور دوسروں سے مقدّم اور آگے رہو۔ اس دین میں داخل ہونے میں تم تاخیر نہ کرو؛ یہاں تک کہ تم تمام لوگوں میں سے اخیر والے ہو جاؤ۔ ( اصابۃ، ج۱، ص۱۸۸، ابن کثیر ،ج۲، ص۵۸۳)
حقیقت یہ ہے کہ یہ آیتِ کریمہ ایسی کامل و جامع ہے کہ وہ اسلام کی پوری تعلیمات کو شامل ہے اور اس میں اسلام کی روح کو چند الفاظ میں جذب کردیا گیا ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی بڑی تاکید فرمائی ہے اور آپس میں موّدت و محبت اور تقوی و طہارت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ کو قرآنِ پاک کی سب سے جامع آیت قرار دیا ہے۔
اس آیتِ کریمہ کا لُبّ لُباب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تین چیزوں کو اختیار کریں اور تین چیزوں سے اجتناب کریں۔ اگر تمام مسلمان اس آیتِ کریمہ کے مقتضیات کے مطابق زندگی گزاریں، تو ان کو اسلام کی اصل روح حاصل ہو جائےگی۔ جن تین چیزوں پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ یہ ہیں: (۱)عدل (اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے حقوق کو انصاف کے ساتھ ادا کرنا)، (۲) احسان (لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور شفقت و محبت کے ساتھ معاملہ کرنا)، (۳) صلہ رحمی (رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا)۔
اور جن تین چیزوں سے منع کیا گیا ہے، وہ یہ ہیں: (۱) فحش کام سے اجتناب کرنا، (۲) ہر بُرے کام سے دور رہنا، (۳) ظلم و تعدّی سے بچنا۔
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=16390