نکاح میں کفو (برابری)
نکاح کی کامیابی کے لیے اور میاں بیوی کے درمیان الفت و محبّت باقی رہنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ اور برابر ہو۔ جب میاں بیوی میں کفو اور جوڑ ہو، تو باہمی الفت اور اتحاد ہوگی اور ہر ایک خوشی اور محبّت کے ساتھ اپنی ازدواجی ذمہ داریوں کو پوری کریں گے۔
بہت سی دفعہ اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان مساوات اور برابری نہ ہونے کی وجہ سے نااتفاقی اور اختلافات پیدا ہوئے اور بالآخر طلاق کی نوبت آ گئی۔ اسی لیے شریعت میں زوجین کے مابین کفاءت (برابری) کو بڑی اہمیت دی ہے۔ نیز کفاءت کے سلسلہ میں شریعت نے بہت سے احکام بتلائے ہیں۔
کفاءت (برابری) کے سلسلہ میں لڑکے کی حالت کا اعتبار ہوگا اور یہ دیکھا جائےگا کہ لڑکا، لڑکی کا برابر جوڑ ہے یا نہیں؟ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ ایک لڑکی کا نکاح ایسے لڑکے کے ساتھ نہیں کرانا چاہیئے، جو مقام و رتبہ میں اس کے مساوی نہ ہو اور اس کے لیے مناسب جوڑا نہ ہو۔ [۱]
اگر لڑکا نو مسلم ہو اور اس کے والد غیر مسلم ہوں، تو وہ ایسی لڑکی کے لیے کفو نہیں ہوگا جس کے والد مسلمان ہوں۔ اسی طرح اگر لڑکے کے والد مسلمان ہوں؛ مگر اس کے دادا غیر مسلم ہوں، تو وہ ایسی لڑکی کے لیے کفو نہیں ہوگا، جس کے والد اور دادا دونوں مسلمان ہوں۔ [۲]
اگر لڑکا اور لڑکی دونوں کے والد اور دادا مسلمان ہوں، تو اس صورت میں لڑکا اور لڑکی کے درمیان مندرجہ ذیل امور میں کفاءت کا اعتبار کیا جائےگا۔
(۱) دین داری : دین داری میں برابری کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص متّبع شریعت نہ ہو اور بے حیائی کے کاموں اور گناہوں میں مبتلا ہو، وہ کسی پاک دامن، نیک سیرت اور دین دار خاتون کے لیے کفو نہیں ہوگا۔ [۳]
(۲) سماجی حیثیت میں برابری : سماجی حیثیت میں مساوات اور برابری کی بنیاد پیشے پر ہے؛ لہذا اگر لڑکے کا پیشہ لڑکی کے خاندان کے پیشے کی طرح باوقار نہ ہو، تو وہ لڑکا اس لڑکی کے لیے موزوں نہیں ہوگا؛ مثلاً اگر لڑکی جوہری (سُنار) کے خاندان سے ہو اور لڑکا جاروب کش ہو یا معمولی درجہ کا مزدور ہو، تو وہ مرتبہ کے لحاظ سے اس لڑکی کا کفو اور برابر نہیں ہوگا۔ [۴]
(۳) مالداری : مالداری میں برابری کا مطلب یہ ہے کہ ایک مفلس و مسکین لڑکا مالدار لڑکی کے ہم پلہ نہیں ہوگا۔ البتہ اگر لڑکا لڑکی کو مہر اور ماہانہ نان و نفقہ دے سکتا ہو، تو وہ اس لڑکی کے لیے مناسب جو ڑا شمار کیا جائےگا، اگر چہ وہ لڑکی کی طرح اتنا مالدار نہ ہو۔ [۵]
(۴) حسب و نسب : حسب و نسب میں برابری کا اعتبار صرف عرب خاندانوں میں ہے، چناں چہ اگر کوئی لڑکی عرب خاندان سے ہوں، تو نسب میں بھی مساوات کا لحاظ رکھا جائےگا اور ایسی لڑکی کا کفو عرب لڑکا ہوگا؛ لہذا اگر لڑکا عجمی ہے، تو وہ عربی لڑکی کے لیے کفو نہیں ہوگا۔ جہاں تک غیر عربوں (عجمیوں) کا معاملہ ہے، تو ان کے درمیان نسبی مساوات کا لحاظ نہیں کیا جائےگا۔ [۶]
(۵) آزادی : آزادی میں برابری کا اعتبار کیا جائےگا؛ لہذا ایک لڑکا جو مملوک اور غلام ہو، کسی آزاد لڑکی کے لیے مناسب جوڑا نہیں شمار کیا جائےگا۔ [۷]
نوٹ: اگر لڑکا لڑکی کے مساوی اور برابر نہ ہو (سماجی اور معا شرتی حیثیت میں لڑکا لڑکی سے کم تر ہو یا یہ کہ لڑکی عرب خاندان سے ہو یا سیّدہ ہو اور لڑکا عجمی ہو)؛ مگر لڑکا دین دار، متّبع شریعت ہو اور اچھے اخلاق و کِردار کا مالک ہو اور لڑکی اس سے شادی کرنے کے لیے راضی ہو اور لڑکی کے والدین بھی لڑکے کے صلاح اور اعلیٰ اخلا ق، عالی کردار اور تقویٰ و دین داری سے خوش ہو تو اس صورت میں باوجود یہ کہ لڑکا لڑکی کا کف نہیں ہےلڑکی کے ماں باپ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی لڑکی کا نکاح اس سے کرائے۔ [۸]
[۱] (الكفاءة معتبرة) في ابتداء النكاح للزومه أو لصحته (من جانبه) أي الرجل لأن الشريفة تأبى أن تكون فراشا للدنيء ولذا (لا) تعتبر (من جانبها) (رد المحتار ۳/۸٤)
[۲] من أسلم بنفسه وليس له أب في الإسلام لا يكون كفئا لمن له أب واحد في الإسلام كذا في فتاوى قاضي خان ومن له أب واحد في الإسلام لا يكون كفئا لمن له أبوان فصاعدا في الإسلام (الفتاوى الهندية ۱/۲۹٠)
نکاح میں کفو (برابری)
[۳] والخامس التقوى والحسب حتى لا يكون الفاسق كفئا للعدلة عند أبي حنيفة رحمه الله سواء كان معلن الفسق أو لم يكن هكذا ذكر شيخ الإسلام رحمه الله وذكر شمس الأئمة السرخسي رحمه الله أن الصحيح عند أبي حنيفة رحمه الله أن الكفاءة في التقوى والحسب غير معتبر في التقوى وفسّر الحسب فقال هو مكارم الأخلاق (المحيط البرهاني ۳/۲۳)
[٤] وأما الحرفة فقد ذكر الكرخي أن الكفاءة في الحرف والصناعات معتبرة عند أبي يوسف فلا يكون الحائك كفئا للجوهري والصيرفي (بدائع الصنائع ۲/۳۲٠)
والسادس الكفاءة في الحرف فقد اعتبرها أبو يوسف ومحمد رحمهما الله وهو إحدى الروايتين عن أبي حنيفة رحمه الله وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن الناس بعضهم أكفاء لبعض إلا حائك أو حجام وفي رواية أو دباغ قال مشايخنا ورابعهم الكنّاس فواحد من هؤلاء الأربعة لا يكون كفئاً للصيرفي والجوهري وعليه الفتوى (المحيط البرهاني ۳/۲٤)
وذكر في شرح الطحاوي: أن أرباب الصناعات المتقاربة أكفاء بخلاف المتباعدة وهذا مختار المحبوبي قال وحرفة فحائك أو حجام أو كناس أو دباغ ليس بكفء لعطار أو بزاز أو صراف وبه يفتى (الترجيح والتصحيح صـ ۳٤۱)
[۵] (وتعتبر) أي الكفاءة (في المال وهو) أي الاعتبار في المال (أن يكون مالكا للمهر والنفقة) يتناول الكسوة لأنهما مما ينفق على الزوجة (وهذا) أي كونه مالكا للمهر والنفقة (هو المعتبر في ظاهر الرواية حتى إن من لم يملكهما) أي المهر والنفقة (أو لا يملك أحدهما لا يكون كفؤا لأن المهر بدل البضع فلا بد من إيفائه وبالنفقة قوام الازدواج ودوامه) فلا بد من ذلك (البناية ۵/۱۱۵)
[٦] (وتعتبر) الكفاءة … (نسبا فقريش) بعضهم (أكفاء) بعض (و) بقية (العرب) بعضهم (أكفاء … و) أما في العجم فتعتبر (حرية وإسلاما) (رد المحتار ۳/ ۸٦)
[۷] (ومنها الحرية) فالمملوك كيف كان لا يكون كفئا للحرة وكذا المعتق أبوه لا يكون كفئا للحرة الأصليةكذا في فتاوى قاضي خان والمعتق يكون كفئا لمثله كذا في شرح الطحاوي (الفتاوى الهندية ۱/۲۹٠)
[۸]وأفاد المصنف أن غير العربي لا يكافئ العربي وإن كان حسيبا أو عالما لكن ذكر قاضيخان في جامعه قالوا الحسيب يكون كفئا للنسيب فالعالم العجمي يكون كفئا للجاهل العربي والعلوية لأن شرف العلم فوق شرف النسب والحسب مكارم الأخلاق في المحيط عن صدر الإسلام الحسيب الذي له جاه وحشمة ومنصب (البحر الرائق ۳/۱۳٠