باغِ محبّت (دوسری قسط)

بسم الله الرحمن الرحيم

اسلام کی خوبصورتی

جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منوّرہ تشریف لائے، تو لوگوں کا جمِّ غفیر انتہائی جوش و خروش سے آپ کی آمد کا منتظر تھا۔ ان لوگوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار اور سچے عاشق مدینہ منوّرہ کے انصار بھی تھے۔ نیز مدینہ منوّرہ کے یہودی اور بُت پرست بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ غیر مسلم لوگ مدّعی نبوّت (یعنی وہ ہستی جو نبوّت کے دعوٰی دار تھے) کی ملاقات کے کافی مشتاق و متمنّی تھے اور ان کے پیغام سننے کے خواہش مند تھے۔

مدینہ منوّرہ پہونچنے کے بعد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا۔ جس میں آپ نے لوگوں کو اسلام کی اچھی تعلیمات کی دعوت دی۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ (جو اس وقت یہودیوں کے ایک بڑے عالم تھے) رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی ملا قات کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں بھی اس مجمع کا ایک فرد تھا، جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کے لیے حاضر ہوا تھا اور جوں ہی میری نگاہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور پر پڑی، مجھے یقین ہو گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں ہو سکتا۔ اس وقت سب سے پہلی بات جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی وہ یہ تھی: اے لوگوں ! آپس میں سلام کو عام کرو، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رشتوں کو جوڑو اور رات میں نفل نماز پڑھو، جب کہ لوگ سو رہے ہوں (اگر تم یہ نیک اعمال کروگے) تو تم سلامتی کے ساتھ جنّت میں داخل ہوگے۔ (سنن ابن ماجہ)

اسلامی تعلیمات کے حسن و جمال اور خوب صورتی کے حوالے سے یہ پہلا تاثر تھا، جو حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور دیگر غیر مسلموں کے دلوں میں قائم ہوا۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اسلام ایک ایسا دین ہے، جو صرف عدل وانصاف کی بات نہیں کرتا ہے؛ بلکہ اِس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اسلام لوگوں کو آپس میں شفقت و محبت، رحم دلی، ہم دردی، خیر خواہی، تعاون اور حسن سلوک کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ یہی تعلیمات تھیں جن کو دیکھ کر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بعد میں مشرّف باسلام ہوئے۔

جب مخلوق کے ساتھ  شفقت و خیر خواہی اور محبت کی بات ہوتی ہے، تو عام طور پر ذہنوں میں صدقات و خیرات کی بات آتی ہے، حالانکہ مخلوق کے ساتھ شفقت و خیر خواہی اور صدقات و خیرات محبّت اس کے ساتھ منحصر نہیں ہیں؛ بلکہ مخلوق کے ساتھ شفقت و محبّت مسلمان کی زندگی کے تمام گوشوں میں جلوہ گر ہونی چاہیئے۔ مثلاً مظلوموں کی دادرسی، دبے کُچلے لوگوں کی حوصلہ افزائی، مصیبت زدہ کی رہنمائی، غریبوں کو کھانا کھلانا، غم زدوں کا غم دور کرنا، معاشی تنگی کے شکار کی مدد کرنا، مسلمانوں کو مسکرا کر سلام کرنا، ان کو خوش کرنا، لوگوں کے لیے (خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم) تکلیف کا باعث نہ بننا اور لوگوں کے ساتھ عفو و درگذر کا معاملہ کرنا یہ سب چیزیں شفقت و محبّت میں داخل ہیں۔

یقیناً شفقت و محبّت کا یہ نرالہ جوہر ہمارے آقا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اخلاقِ عالیہ اور اوصافِ حمیدہ کے اندر تھے اور آپ کے یہی مبارک کردار کو مخلوقِ الٰہی دن و رات مشاہدہ کرتے تھے جو بہت سے لوگوں کے اسلام لانے کا سبب بنا۔

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=16335


Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۱۰

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط دوم حضرت مولانا اشرف علی …