(۱) مسجد میں تجارتی لین دین نہ کرنا۔ [۱]
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهما قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تناشد الأشعار في المسجد وعن البيع والاشتراء فيه وأن يتحلق الناس يوم الجمعة قبل الصلاة في المسجد (سنن الترمذي رقم ۳۲۲)[۲]
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں بیت بازی، خرید و فروخت اور مسجد میں جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقہ لگانے سے منع کیا ہے(چونکہ حلقہ کی ہیئت پر بیٹھنا خطبہ کی طرف متوجہ ہونے سے مانع ہے)۔
(۲) مسجد میں گم شدہ چیزوں کا اعلان نہ کرنا۔ [۳]
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد فليقل لا ردها الله عليك فإن المساجد لم تبن لهذا (صحيح مسلم رقم ۵٦۸)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ”جو شخص کسی کو مسجد میں گم شدہ چیزوں کا اعلان کرتے ہوئے سنے، تو وہ اس کو کہے اللہ تعالیٰ تم کو وہ چیز نہ لوٹائے، کیوں کہ مسجدیں اِس مقصد کے لیے نہیں بنائی گئیں۔
(۳) مسجد میں آواز بلند نہ کرنا۔ [۴]
عن السائب بن يزيد قال كنت نائما في المسجد فحصبني رجل فنظرت فإذا عمر بن الخطاب فقال اذهب فأتني بهذين فجئته بهما فقال ممن أنتما أو من أين أنتما قالا من أهل الطائف قال لو كنتما من أهل المدينة لأوجعتكما ترفعان أصواتكما في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم (صحيح البخاري رقم ٤۷٠)[۵]
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) مسجد میں سو رہا تھا کہ کسی نے مجھ پر کنکری پھینکی (مجھے جگانے کے لیے) تو میں نے نظر اٹھائی (یہ دیکھنے کے لیے کہ کنکری کس نے پھینکی) تو میں نے دیکھا کہ وہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ ان دونوں آدمیوں کو میرے پاس لے کر آؤ۔ میں ان دونوں کو لے کر آیا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم دونوں کہاں سے ہو؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ اگر تم دونوں مدینہ منورہ سے ہوتے، تو میں تمہیں سخت سزا دیتا۔ (کیوں کہ) تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آواز بلند کر رہے ہو۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اتخذ الفيء دولا والأمانة مغنما والزكاة مغرما وتعلم لغير الدين وأطاع الرجل امرأته وعق أمه وأدنى صديقه وأقصى أباه وظهرت الأصوات في المساجد وساد القبيلة فاسقهم وكان زعيم القوم أرذلهم وأكرم الرجل مخافة شره وظهرت القينات والمعازف وشربت الخمور ولعن آخر هذه الأمة أولها فارتقبوا عند ذلك ريحا حمراء وزلزلة وخسفا ومسخا وقذفا وآيات تتابع كنظام قطع سلكه فتتابع (سنن الترمذي رقم ۲۲۱۱)[٦]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مالِ فیئ (جنگ کے بغیر حاصل ہونے والے مال) کو ذاتی مال شمار کیا جائےگا جس کو لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں گے اور استعمال کریں گے اور امانت کو مالِ غنیمت (جنگ کے بعد حاصل ہونے والا مال) سمجھا جائےگا (یعنی لوگ امانت میں خیانت کریں گے) اور زکوٰۃ کو ٹیکس سمجھا جائےگا، علمِ دین دین پر عمل کرنے کے واسطے حاصل نہیں کیا جائےگا بلکہ کسی اور مقصد کے لیے حاصلی کیا جائےگا(یعنی دنیا کے لیے)، آدمی اپنی بیوی کی سنےگا اور ماں کی نافرمانی کرےگا۔ اپنے دوست کو قریب کرےگا اور والد کو دور کرےگا، مسجدوں میں آوازیں بلند ہوں گی (شور و شغب ہوگا)۔ فاسق آدمی قبیلہ کا سردار بنےگا، قوم کا سربراہ گٹھیا آدمی ہوگا، آدمی کی عزت اس کی بُرائی کے ڈر کی وجہ سے کی جائےگا، گانے والیاں اور موسیقی کے آلات عام ہو جائیں گے، کُھلّم کُھلَّا شرابیں پی جائیں گی اور ا س امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں (سلفِ صالحین) پر لعنت کریں گے(یعنی بُرا بھلا کہیں گے)، تو (ان نشانیوں کے ظاہر ہونے کے بعد) انتظار کرو سرخ آندھیاں، زلزلے، لوگوں کا زمین میں دھنسنا، لوگوں کی شکلیں بگڑنا، پتھروں کی بارش ہونا اور اس قسم کی دیگر نشانیاں جو دنیا میں مسلسل ظاہر ہوں گی اور یہ نشانیاں پے در پے ظاہر ہوں گی جیسے کہ ہار جب اس کا دھاگا کاٹ دیا جائے، تو اس کی موتیاں مسلسل گرنے لگتی ہیں۔
(۴) مسجد میں داخل ہونے کے وقت موبائل بند کرلیں؛ تا کہ نماز اور دیگر عبادات میں مشغول لوگوں کو خلل لاحق نہ ہو۔
Source: https://ihyaauddeen.co.za/?p=7628
[۱] ذكر الفقيه رحمه الله تعالى في التنبيه حرمة المسجد خمسة عشر … والثالث أن لا يشتري ولا يبيع (الفتاوى الهندية ۵/۳۲۱)
[۲] قال أبو عيسى حديث عبد الله بن عمرو بن العاص حديث حسن
[۳]ويكره … وإنشاد ضالة
قال الشامي : قوله ( وإنشاد ضالة ) هي الشيء الضائع وإنشادها السؤال عنها وفي الحديث إذا رأيتم من ينشد ضالة في المسجد فقولوا لا ردها الله عليك (رد المحتار ۱/٦٦٠)
[٤] ذكر الفقيه رحمه الله تعالى في التنبيه حرمة المسجد خمسة عشر … والسادس أن لا يرفع فيه الصوت من غير ذكر الله تعالى (الفتاوى الهندية ۵/۳۲۱)
[۵] قال الحافظ في الفتح (۱/٦۵٦) : قوله كنت قائما في المسجد كذا في الأصول بالقاف وفي رواية نائما بالنون ويؤيده رواية حاتم عن الجعيد بلفظ كنت مضطجعا
[٦] قال أبو عيسى وفي الباب عن علي وهذا حديث غريب
وعن علي رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا فعلت أمتي خمس عشرة خصلة فقد حل بها البلاء قيل وما هي يا رسول الله قال إذا كان المغنم دولا وإذا كانت الأمانة مغنما والزكاة مغرما وأطاع الرجل زوجته وعق أمه وبر صديقه وجفا أباه وارتفعت الأصوات في المساجد وكان زعيم القوم أرذلهم وأكرم الرجل مخافة شره وشربت الخمر ولبس الحرير واتخذت القينات والمعازف ولعن آخر هذه الأمة أولها فليرتقبوا عند ذلك ريحا حمراء أو خسفا أو مسخا رواه الترمذي وقال لا نعلم أحدا روى هذا الحديث عن يحيى بن سعيد الأنصاري غير الفرج بن فضالة (سنن الترمذي رقم ۲۲۱٠)