نمازِ جنازہ کی صحت کے لیے جماعت شرط نہیں ہے۔ چناں چہ اگر ایک شخص بھی میّت کی نمازِ جنازہ ادا کر لے، تو نمازِ جنازہ درست ہوگی، خواہ وہ (نمازِ جنازہ پڑھنے والا) مذکور ہو یا مؤنث، بالغ ہو یا نابالغ۔ بہر صورت نمازِ جنازہ ادا ہو جائےگی۔ [۱]
البتہ جماعت کے ساتھ نمازِ جنازہ ادا کرنے میں میّت کے لیے زیادہ فائدہ ہے؛ اس لیے کہ جب لوگوں کی ایک بڑی تعداد مجموعی طور پر نمازِ جنازہ پڑھیں اور نمازِ جنازہ میں اللہ تعالیٰ سے میّت کے لیے مغفرت کی دعا کریں، تو اس سے اللہ تعالیٰ کی رحمت زیادہ متوجہ ہوگی، بنسبت اس کے کہ صرف ایک آدمی میّت کے لیے دعائے مغفرت کرے۔
حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتی ہیں: [۲]
عن عائشة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال لا يموت أحد من المسلمين فتصلي عليه أمة من المسلمين يبلغون أن يكونوا مائة فيشفعوا له إلا شفعوا فيه (سنن الترمذي، الرقم: ١٠٢٩)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب کسی مسلمان کا انتقال ہو جائے پھر سو مسلمان اس کی نمازِ جنازہ ادا کریں اور اس کے لیے (نمازِ جنازہ میں) سفارش کریں، تو اس کے حق میں ان کی سفارش ضرور قبول کی جائےگی۔ (ترمذی شریف)
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=1839
[۱] وشرطها أيضا حضوره (ووضعه) وكونه هو أو أكثر (أمام المصلي) (الدر المختار ٢/٢٠٨)
تنبيه ينبغي أن يكون في حكم من دفن بلا صلاة من تردى في نحو بئر أو وقع عليه بنيان ولم يمكن إخراجه بخلاف ما لو غرق في بحر لعدم تحقق وجوده أمام المصلي تأمل (رد المحتار ٢/٢٢٤)
[۲] وشرطها أيضا حضوره (ووضعه) وكونه هو أو أكثر (أمام المصلي) (الدر المختار ٢/٢٠٨)
تنبيه ينبغي أن يكون في حكم من دفن بلا صلاة من تردى في نحو بئر أو وقع عليه بنيان ولم يمكن إخراجه بخلاف ما لو غرق في بحر لعدم تحقق وجوده أمام المصلي تأمل (رد المحتار ٢/٢٢٤)