اذان اور اقامت کی سنتیں اور آداب-۹

اذان دینے کے وقت مندرجہ ذیل سنتوں اور آداب کا لحاظ رکھا جائے:

(۱) حيّ على الصّلاه کہنے کے وقت چہرہ دائیں طرف پھیرنا اور حيّ على الفلاح کے وقت چہرہ بائیں طرف پھیرنا۔ حيّ على الصّلاه اور حيّ على الفلاح کے وقت سینہ مت پھیرو، صرف چہرہ پھیرو ۔[۱]

عن عون بن أبي جحيفة عن أبيه قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم بمكة وهو فى قبة حمراء من أدم فخرج بلال فأذن … فلما بلغ حي على الصلاة حي على الفلاح لوى عنقه يمينا وشمالا ولم يستدر (سنن أبي داود رقم ٥٢٠)

حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ مکرمہ میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت چمڑے سے بنے ہوئے سرخ رنگ کے خیمہ میں تشریف فرما تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دینے کے لیے نکلے اور اذان دی۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ دورانِ اذان حيّ على الصّلاه اور حيّ على الفلاح پر پہونچے، تو انہوں نے اپنی گردن دائیں اور بائیں جانب پھیری اور اپنا سینہ نہیں پھیرا۔

 عن أبي جحيفة رضي الله عنه قال: رأيت بلالا يؤذن ويدور ويتبع فاه هاهنا وهاهنا وإصبعاه في أذنيه (سنن الترمذي رقم ١٩٧)[۲]

حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضر ت بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ اذان دے رہے ہیں اور (حيّ على الصّلاه اور حيّ على الفلاح) کے وقت اپنے چہرے کو دائیں اور بائیں جانب گھما رہے ہیں دراں حالیکہ ان کی دونوں انگلیاں ان کے کانوں میں ہیں۔

(۲) مسجد سے باہر اذان دینا۔ بہتر یہ ہے کہ بلند جگہ سے اذان دی جائے ،تاکہ آواز دور تک پہونچے۔[۳]

عن عروة بن الزبير عن امرأة من بني النجار قالت: كان بيتي من أطول بيت حول المسجد وكان بلال يؤذن عليه الفجر فيأتي بسحر فيجلس على البيت ينظر إلى الفجر فإذا رآه تمطى ثم قال: اللهم إني أحمدك وأستعينك على قريش أن يقيموا دينك قالت: ثم يؤذن قالت: والله ما علمته كان تركها ليلة واحدة تعني هذه الكلمات (سنن أبي داود رقم ٥١٩)[٤]

حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ بنو نجار کی ایک عورت سے نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میرا مکا ن مسجد (مسجد ِ نبوی ) کے آس  پاس مکانات میں سب سے اونچا تھا ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ میرے مکان کی چھت پر چڑھ کر اذان دیتے تھے ۔(حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی عادت تھی  کہ ) وہ سحری کےوقت آتے اور چھت پر بیٹھ کر صبح صادق کا انتظار  کرتے اور جب اس کو دیکھ لیتے (صبح صادق  کو) تو (صبح صادق کے انتظار میں دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے )کھڑے ہو کر انگڑائی لیتے پھر یہ دعا کرتے : “اللهم إني أحمدك وأستعينك على قريش أن يقيموا دينك”  (اے اللہ !میں آپ کی حمد کرتا ہوں اور قریش (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ) کے لیے مدد طلب کرتا ہوں کہ ان کو اسلام کی ہدایت نصیب فرما تاکہ) وہ آپ کے دین کو لے کر کھڑے ہو جائیں(دین اسلام کی سر بلندی کا ذریعہ بنیں)۔ بنو نجار کی عورت مزید فرماتی ہیں: پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے۔ (اس عورت نے یہ بھی کہا) بخدا!مجھے یاد نہیں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ایک رات بھی (قریش کے لیے ) ان دعائیہ کلمات کو چھوڑا ہو۔

 

Source: http://ihyaauddeen.co.za/?cat=379


[۱] قوله ( ويلتفت يمينا وشمالا بالصلاة والفلاح ) لما قدمناه ولفعل بلال رضي الله عنه على ما رواه الجماعة ثم أطلقه فشمل ما إذا كان وحده على الصحيح لكونه سنة الأذان فلا يتركه خلافا للحلواني لعدم الحاجة إليه وفي السراج الوهاج إنه من سنن الأذان فلا يخل المنفرد بشيء منها حتى قالوا في الذي يؤذن للمولود ينبغي أن يحول اهـ وقيد باليمين والشمال لأنه لا يحول وراءه لما فيه من استدبار القبلة ولا أمامه لحصول الإعلام في الجملة بغيرها من كلمات الأذان وقوله بالصلاة والفلاح لف ونشر مرتب يعني أنه يلتفت يمينا بالصلاة وشمالا بالفلاح وهو الصحيح خلافا لمن قال إن الصلاة باليمين والشمال والفلاح كذلك (البحر الرائق ۱/۲۷۲)

[۲] قال أبو عيسى: حديث أبي جحيفة حديث حسن صحيح

[۳] ينبغي أن يؤذن على المأذنة أو خارج المسجد ولا يؤذن في المسجد كذا في فتاوى قاضي خان والسنة أن يؤذن في موضع عال يكون أسمع لجيرانه ويرفع صوته ولا يجهد نفسه كذا في البحر الرائق (الفتاوى الهندية ۱/۵۵)

[٤] قال الحافظ : أخرجه أبو داود وإسناده حسن (فتح الباري ۲/۱۲۱)

Check Also

دعا کی سنتیں اور آداب – ۷

(۱۷) بہتر یہ ہے کہ جامع دعا کریں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں …