سوال:- رمی جمرات کے دنوں میں رمی جمرات کے صحیح اوقات کیا ہیں؟
الجواب حامدًا و مصليًا
دسویں ذی الحجہ کو رمی جمرات کا وقت صبح صادق کے بعد شروع ہوتا ہے اور گیارہویں ذی الحجہ کی صبح صادق تک رہتا ہے۔ صبح صادق کے بعد سے لے کر طلوع آفتاب تک رمی جمرات جائز ہے؛ مگر مکروہ ہے، الّا یہ کہ کوئی عذر ہو (مثلاً بیماری یا کمزوری وغیرہ)۔ رمی جمرات کا مسنون وقت طلوعِ آفتاب سے لے کر زوال تک ہے، پھر زوال سے لے کر غروب آفتاب تک رمی جمرات مباح (جائز) ہے۔ غروب آفتاب کے بعد سے لے کر اگلے دن (یعنی گیارہویں ذی الحجہ) کی صبح صادق تک رمی جمرات مکروہ ہے، الّا یہ کہ کوئی عذر ہو (مثلاً بیماری یا کمزوری وغیرہ)۔
گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو رمی جمرات کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے اور اگلے دن کی صبح صادق تک رہتا ہے؛ مگر رمی جمرات کا مسنون وقت زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک ہے۔ غروب آفتاب کے بعد سے لے کر اگلے دن کی صبح صادق تک رمی جمرات مکروہ ہے الاّ یہ کہ کوئی عذر ہو (مثلاً بیماری یا کمزوری وغیرہ)۔
تیرہویں ذی الحجہ کو رمی جمرات کا وقت صبح صادق کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور غروب آفتاب تک رہتا ہے؛ مگر رمی جمرات کا مسنون وقت زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک ہے۔ صبح صادق کے بعد سے لے کر طلوع آفتاب تک رمی جمرات جائز ہے؛ مگر مکروہ ہے۔
رمی جمرات کے ایام تیرہویں ذی الحجہ کو غروب شمس کے وقت ختم ہو جاتے ہیں۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
( أتى منى )… ( ورمى جمرة العقبة من بطن الوادي )…. ووقته من الفجر إلى الفجر ويسن من طلوع ذكاء لزوالها ويباح لغروبها ويكره للفجر… ( وبعد الزوال ثاني النحر رمي الجمار الثلاث يبدأ )…. ( ثم ) رمى ( غدا كذلك ثم بعده كذلك إن مكث وهو أحب وإن قدم الرمي فيه ) أي في اليوم الرابع ( على الزوال جاز ) فإن وقت الرمي فيه من الفجر للغروب وأما في الثاني والثالث فمن الزوال لطلوع ذكاء (الدر المحتار)
قوله ( ووقته ) أي وقت جوازه أداء من الفجر أي فجر النحر إلى فجر اليوم الثاني قال في البحر حتى لو أخره حتى طلع الفجر في اليوم الثاني لزمه دم عنده خلافا لهما ولو رمى قبل طلوع فجر النحر لم يصح اتفاقا…. قوله ( فإن وقت الرمي فيه ) أي في اليوم الرابع من الفجر للغروب أي غروب شمسه ولا يتبعه ما بعده من الليل بخلاف ما قبله من الأيام والمراد وقت جوازه في الجملة فإن ما قبل الزوال وقت مكروه وما بعده مسنون وبغروب الشمس من هذا اليوم يفوت وقت الأداء والقضاء اتفاقا شرح اللباب. قوله ( فمن الزوال لطلوع ذكاء ) أي إلى طلوع الشمس من اليوم الرابع والمراد أنه وقت الجواز في الجملة قال في اللباب وقت رمي الجمار الثلاث في اليوم الثاني والثالث من أيام النحر بعد الزوال فلا يجوز قبله في المشهور وقيل يجوز والوقت المسنون فيما يمتد من الزوال إلى غروب الشمس ومن الغروب إلى الطلوع وقت مكروه وإذا طلع الفجر أي فجر الرابع فقد فات وقت الأداء (شامي 2/513-515)
اما الرمي في اليوم الأول…ووقت مسنون من طلوع الشمس إلى الزوال (غنية ص181)
حررہ :- مفتي زکريا ماکدا
الجواب صحيح :- مفتي ابراہيم صالح جي