
انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کا جال
عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: عليكم بلا إله إلا الله والاستغفار فأكثروا منهما فإن إبليس قال: أهلكت الناس بالذنوب وأهلكوني بلا إله إلا الله والإستغفار فلما رأيت ذلك أهلكتهم بالأهواء وهم يحسبون أنهم مهتدون (أخرجه السيوطي في الجامع الصغير، الرقم: 8232)
حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله اور استغفار کو بہت کثرت سے پڑھا کرو۔ شیطان کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو گناہوں سے ہلاک کیا اور انہوں نے مجھے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اور استغفار سے ہلاک کر دیا۔ جب میں نے دیکھا (کہ یہ تو کچھ بھی نہ ہوا)، تو میں نے ان کو ہوائے نفس (یعنی بدعات) سے ہلاک کیا اور وہ اپنے کو ہدایت پر سمجھتے رہے۔
ف: لَا إِلَهَ إِلَّا الله اور استغفار سے ہلاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کا منتہائے مقصد دل پر اپنا زہر چڑھانا ہے اور یہ زہر جب ہی چڑھتا ہے، جب دل الله کے ذکر سے خالی ہو؛ ورنہ شیطان کو ذلت کے ساتھ دل سے واپس ہونا پڑتا ہے اور الله کا ذکر دلوں کی صفائی کا ذریعہ ہے۔
چناں چہ مشکوٰۃ میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ ہر چیز کے لیے ایک صفائی ہوتی ہے۔ دلوں کی صفائی الله کا ذکر ہے۔
اسی طرح استغفار کے بارے میں کثرت سے احادیث میں یہ وارد ہوا ہے کہ دلوں کے میل اور زنگ کو دور کرنے والا ہے۔
ابو علی دقّاق رحمۃ الله علیہ کہتے ہیں کہ جب بندہ اخلاص سے لا الٰه کہتا ہے، تو ایک دم دل صاف ہو جاتا ہے (جیسا آئینہ پر بھیگا ہوا کپڑا پھیرا جائے)۔ پھر وہ الّا الله کہتا ہے، تو صاف دل پر اس کا نور ظاہر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ شیطان کی ساری ہی کوشش بے کار ہو گئی اور ساری محنت رائیگاں گئی۔
ہوائے نفس سے ہلاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ناحق کو حق سمجھنے لگے اور جو دل میں آ جائے، اسی کو دین اور مذہب بنالے۔ قرآن شریف میں کئی جگہ اس کی مذمت وارد ہوئی ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہے:
أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوٰهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشٰوَةً ۚ فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿٢٣﴾
کیا آپ نے اس شخص کی حالت بھی دیکھی، جس نے اپنا خدا اپنی خواہشِ نفس کو بنا رکھا ہے اور خدا تعالی نے اس کو باوجود سمجھ بوجھ کے، گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور آنکھ پر پردہ ڈال دیا (کہ حق بات کو نہ سنتا ہے، نہ دیکھتا ہے، نہ دل میں اترتی ہے)۔ پس الله کے (گمراہ کر دینے کے) بعد کون ہدایت کر سکتا ہے؟ پھر بھی تم نہیں سمجھتے۔ (سورہ جاثیہ، آیت: ۲۳)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِينَ ﴿٥٠﴾
ایسے شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا، جو اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہو بغیر اس کے، کہ کوئی دلیل الله کی طرف سے (اس کے پاس) ہو۔ الله تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔ (سورہ قصص، آیت: ۵۰)
اور بھی متعدد جگہ اس قسم کا مضمون وارد ہوا ہے۔
یہ شیطان کا بہت ہی سخت حملہ ہے کہ وہ غیر دین کو دین کے لباس میں سمجھا وے اور آدمی اس کو دین سمجھ کر کرتا رہے اور اس پر ثواب کا امیدوار بنا رہے اور جب وہ اس کو عبادت اور دین سمجھ کر کر رہا ہے، تو اس سے توبہ کیوں کر سکتا ہے؟
اگر کوئی شخص زنا کاری، چوری وغیرہ گناہوں میں مبتلا ہو، تو کسی نہ کسی وقت توبہ اور چھوڑ دینے کی اُمید ہے؛ لیکن جب کسی ناجائز کام کو وہ عبادت سمجھتا ہے، تو اس سے توبہ کیوں کرے اور کیوں اس کو چھوڑے؟ بلکہ دن بدن اس میں ترقی کرےگا۔
یہی مطلب ہے شیطان کے اس کہنے کا کہ میں نے گناہوں میں مبتلا کیا؛ لیکن ذکر اذکار، توبہ استغفار سے وہ مجھے دِق کرتے رہے، تو میں نے ایسے جال میں پھانس دیا کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتے۔
اس لیے دین کے ہر کام میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کے طریقہ کو اپنا رہبر بنانا بہت ہی ضروری امر ہے اور کسی ایسے طریقہ کو اختیار کرنا جو خلاف سنت ہو، نیکی برباد گناہ لازم ہے۔
امام غزالی رحمۃ الله علیہ نے حسن بصری رحمۃ الله علیہ سے بھی نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ شیطان کہتا ہے کہ میں نے اُمت محمدیہ کے سامنے گناہوں کو زیب وزینت کے ساتھ پیش کیا؛ مگر ان کے استغفار نے میری کمر توڑ دی، تو میں نے ایسے گناہ ان کے پاس پیش کیے، جن کو وہ گناہ ہی نہیں سمجھتے کہ ان سے استغفار کریں اور وہ اَہوا یعنی بدعات ہیں کہ وہ ان کو دین سمجھ کر کرتے ہیں۔
وہب بن منبہ رحمۃ الله علیہ کہتے ہیں کہ الله سے ڈر۔ تُو شیطان کو مجمعوں میں لعنت کرتا ہے اور چپکے سے اس کی اطاعت کرتا ہے اور اس سے دوستی کرتا ہے۔
بعض صوفیا سے منقول ہے کہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ حق تعالیٰ شانہ جیسے محسن کے احسانات معلوم ہونے کے بعد اور ان کے اقرار کے بعد اس کی نافرمانی کی جائے اور شیطان کی دشمنی کے باوجود، اس کی عیاری اور سرکشی معلوم ہونے کے باوجود اس کی اطاعت کی جائے۔ (فضائلِ اعمال، فضائلِ ذکر، ص ۱۱۸-۱۲۰)
Alislaam.com – اردو हिन्दी ગુજરાતી