كان الناس يأتون سيدنا بلالا رضي اله عنه ويذكرون فضله وما قسم اله له من الخير، فيقول بتواضع: إنما أنا حبشي كنت بالأمس عبدا (طبقات ابن سعد ٣/١٨٠)
جب لوگ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پاس آتے اور ان کی خوبیوں اور ان عظیم نعمتوں کی تعریف کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی تھیں ، تو آپ ان کو عاجزی سے جواب دیتے: ’’میں صرف ایک حبشی ہوں جو کل ایک غلام تھا۔‘‘
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا کعبہ شریف کی چھت پر اذان دینا
فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کعبہ شریف میں داخل ہوئے۔ اس وقت مسجد قریش سے بھری ہوئی تھی جو صفوں میں کھڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہے تھے کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے جنہوں نے چند سال پہلے انہیں مکہ مکرمہ سے نکال دیا تھا۔ قریش کے کچھ لوگوں نے مکہ مکرمہ کے اردگرد پہاڑوں کی چوٹیوں سے یہ منظر دیکھا، جب کہ قریش کے کچھ لوگ بھاگ کر روپوش ہو گئے ۔ یہ وہ تاریخی موقع تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کعبہ شریف پر چڑھنے اور ظہر کی اذان دینے کا حکم دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دینے کے لیے کعبہ شریف پر چڑھے ۔ اس وقت قریش میں سے عتاب بن اسید، حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو اور ابو سفیان کعبہ شریف کے اطراف میں بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھ کر عتاب بن اسید نے کہا: اللہ تعالیٰ نے میرے والد اسید کو آج سے پہلے اس دنیا سے اٹھا کر( موت دے کر ) عزت بخشی کہ اس کو آج اذان کی آواز سننے سے بچا لیا ، اگر وہ زندہ ہوتے اور یہ اذان سنتے تو بہت غصہ ہوتے ۔
حارث بن ہشام نے قسم کھا کر کہا : اگر میں اس دین کو سچا اور حق کی طرف دعوت دینے والا سمجھتا تو میں اس کی پیروی کرتا۔ صرف اتنا ہی نہیں ، بل کہ حارث نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی توہین کرتے ہوئے مندرجہ ذیل توہین آمیز تبصرہ بھی کیا: “کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کالے کوے کے علاوہ اذان دینے والا کوئی اور نہیں ملا س؟” ۔ سہیل بن عمرو نے کہا: اگر اللہ تعالیٰ کو کوئی چیز ناپسند ہوتی ہے تو وہ اسے بدل دیتا ہے ۔ ابو سفیان نے کہا کہ میں کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ یہ پتھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میری بات سے آگاہ کر دے گا ۔ یہ کہتے ہی حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو ان لوگوں کی باتوں سے آگاہ کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلوایا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے جو باتیں کی ہیں مجھے ان کی خبر ملی ہے۔ اس کے بعد آپ نے ان میں سے ہر ایک کے سامنے بالکل وہی بیان کیا جو اس نے کہا تھا۔ حارث اور عتاب حیران ہوئے اور فوراً اسلام قبول کر لیا اور یہ کہا: “ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں کیوں کہ آپ نے ہمیں ہماری خفیہ باتوں سے آگاہ کیا ، جب کہ اس مجلس میں ہمارے ساتھ کوئی اور موجود نہیں تھا جو آپ کو ہماری باتوں کی خبر دیتا ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی درج ذیل آیت نازل فرمائی:
ترجمہ :
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت (یعنی نبی آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت حوا علیہا السلام) کے ایک (جوڑے) سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو، اور اللہ (جو کچھ ہو رہا ہے ، اس کو) خوب جانتا ہے اور پوری طرح باخبر ہے۔ (سورہ حجرات)
Alislaam.com – اردو हिन्दी ગુજરાતી