فضائلِ اعمال – ۳۳

سریۃ العنبر میں فقر کی حالت

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب سن ۸ ھ میں سمندر کے کنارے ایک لشکر تین سو آدمیوں کا، جن پر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ امیر بنائے گئے تھے، بھیجا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تھیلی میں کھجوروں کا توشہ بھی ان کو دیا۔ پندرہ روز ان حضرات کا وہاں قیام رہا اور توشہ ختم ہو گیا۔

حضرت قیس رضی اللہ عنہ نے جو اس قافلہ میں تھے، مدینہ منورہ میں قیمت ادا کرنے کے وعدہ پر قافلہ والوں سے اونٹ خرید کر ذبح کرنا شروع کیے اور تین اونٹ روزانہ ذبح کرتے؛ مگر تیسرے دن امیرِ قافلہ نے اس خیال سے کہ سواریاں ختم ہو گئیں، تو واپسی بھی مشکل ہو جائےگی، ذبح کی ممانعت کی اور سب لوگوں کے پاس اپنی اپنی جو کچھ کھجوریں موجود تھیں، جمع کر کے ایک تھیلی میں رکھ لیں اور ایک ایک کھجور روزانہ تقسیم فرما دیا کرتے، جس کو چوس کر یہ حضرات پانی پی لیتے اور رات تک کے لیے یہی کھانا تھا۔

کہنے کو مختصر سی بات ہے؛ مگر لڑائی کے موقع پر جب کہ قوّت اور طاقت کی بھی ضرورت ہو، ایک کھجور پر دن بھر گذار دینا دل وجگر کی بات ہے۔

چناں چہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے جب یہ قصہ لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سنایا، تو ایک شاگرد نے عرض کیا کہ حضرت! ایک کھجور کیا کام دیتی ہوگی؟ آپ نے فرمایا: اس کی قدر جب معلوم ہوئی، جب وہ بھی نہ رہی کہ اب بَجُز فاقہ کے، کچھ نہ تھا۔ درخت کے خشک پتّے جھاڑتے اور پانی میں بھگو کر کھا لیتے۔

مجبوری سب کچھ کرا دیتی ہے اور ہر تنگی کے بعد اللہ تعالیٰ جل شانہ کے یہاں سے سہولت ہوتی ہے۔

حق تعالیٰ نے ان تکالیف اور مشقتوں کے بعد سمندر میں ایک مچھلی ان لوگوں کو پہنچائی، جس کو عنبر کہتے ہیں۔ اتنی بڑی تھی کہ اٹھارہ روز تک یہ حضرات اس میں سے کھاتے رہے اور مدینہ منورہ پہنچنے تک اس کا گوشت توشوں میں ساتھ تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب سفر کا مفصّل قصہ سنایا گیا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ کا ایک رزق تھا، جو تمہاری طرف بھیجا گیا۔

ف: مشقت اور تکالیف اس دنیا میں ضروری ہیں اور اللہ والوں کو خاص طور پر پیش آتی ہیں۔

اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو سب سے زیادہ مشقت میں رکھا جاتا ہے، پھر جو سب سے افضل ہوں، پھر ان کے بعد جو بقیہ میں افضل ہوں۔

آدمی کی آزمایش اس کی دینی حیثیت کے موافق ہوتی ہے اور ہر مشقت کے بعد اللہ کی طرف سے اس کے لطف وفضل سے سہولت بھی عطا ہوتی ہے۔

یہ بھی غور کیا کریں کہ ہمارے بڑوں پر کیا کیا گذر چکا اور یہ سب دین ہی کی خاطر تھا۔ اس دین کے پھیلانے میں جس کو آج ہم اپنے ہاتھوں سے کھو رہے ہیں، ان حضرات نے فاقے کیے، پتّے چابے، اپنے خون بہائے اور اُس کو پھیلایا، جس کو ہم آج باقی بھی نہیں رکھ سکتے۔ (فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص ۶۵-۶۶)

Check Also

فضائلِ صدقات – ۲۶

تین دوستوں کے درمیان ایک ہزار درہم  واقدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے دو …