حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی سخاوت
ابان بن عثمان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو پریشان اور ذلیل کرنے کے لیے یہ حرکت کی کہ قریش کے سرداروں کے پاس جا کر یہ کہا کہ ابنِ عباس نے کل صبح کو آپ کی کھانے کی دعوت کی ہے۔ سب جگہ یہ پیام پہنچاتا ہوا پھر گیا۔
جب صبح کو کھانے کا وقت ہوا، تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے گھر اتنا مجمع اکٹھا ہو گیا کہ گھر بھر گیا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ صورت پیش آئی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سب کو بٹھایا اور بازار سے پھلوں کے ٹوکرے منگا کر ان کے سامنے رکھے کہ اس سے شغل کریں اور بات چیت شروع کر دی اور بہت سے باورچیوں کو حکم دے دیا کہ کھانا تیار کیا جائے۔
اتنے وہ حضرات پھلوں کے کھانے سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ کھانا تیار ہو گیا۔ سب نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا۔
اس کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے خزانچیوں سے پوچھا: کیا اتنی گنجایش ہے کہ ہم اس دعوت کے سلسلہ کو روزانہ جاری رکھ سکیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرما دیا کہ اس مجمع کی روزانہ صبح کو ہمارے یہاں دعوت ہے۔ روز آ جایا کریں۔
یہ زمانہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اوپر فتوحات کی کثرت کا تھا؛ مگر ان حضرات کی سخاوت کے زور سے مال اس طرح جلد ختم ہو جاتا تھا؛ جیسا کہ پانی چَھلنی میں بھرا اور ختم ہوا؛ اس لیے جب ہوتا تھا، تو خوب ہوتا تھا اور جب وہ ختم ہو جاتا تھا، تو اپنے پاس کھانے کو ایک درہم بھی نہ رہتا تھا۔ نہ جمع کرنے کا ان کا دستور تھا، نہ اپنے لیے علیحدہ کر کے رکھنا۔ یہ جانتے تھے کہ کس جانور کا نام ہے۔ لاکھوں کی مقدار آتی تھی اور مِنٹوں میں تقسیم ہو جاتی تھی۔ (فضائلِ صدقات، ص ۷۰۳-۷۰۴)