أوصت أم المؤمنين السيدة أم سلمة رضي الله عنها أن يصلي عليها سعيد بن زيد رضي الله عنه (مصنف ابن أبي شيبة، الرقم: ١١٢٩٩)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کی تھی کہ ان کی وفات کے بعد حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ ان کی نماز جنازہ پڑھائیں۔
اہل مدینہ کی نظر میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کا بلند مقام
حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں مدینہ منورہ کے گورنر مروان بن حکم کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے مروان کو حکم دیا کہ وہ مدینہ منورہ کے لوگوں سے ان کے بیٹے یزید بن معاویہ کی طرف سے بیعت لے، جو ان کے بعد (یعنی حضرت معاویہ کے بعد) خلیفہ ہوگا۔
حضرت معاویہ رضی الله عنہ کو اپنے بیٹے یزید کی بد اعمالیوں کا علم نہیں تھا؛ اس لیے انہوں نے اس کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا ارادہ کیا۔
مگر مروان نے فوری طور پر ان کے حکم کی تعمیل نہیں کی؛ بلکہ انتظار کیا۔ ایک شامی آدمی، جو اس وقت مدینہ منورہ میں تھا، وہ اس وقت مروان کے پاس موجود تھا، تو اس نے مروان سے پوچھا کہ تم حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے حکم پر عمل کرنے میں تاخیر کیوں کر رہے ہو؟
مروان نے جواب دیا کہ میں سعید بن زید رضی الله عنہ کا انتظار کر رہا ہوں کہ وہ پہلے بیعت لیں؛ کیوں کہ وہ اہلِ مدینہ کے سردار ہیں اور لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں۔ اگر وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت لیں گے، تو دوسرے لوگ ان کی پیروی کریں گے۔
شامی آدمی نے کہا کہ کیا میں ان کے پاس جا کر انہیں آپ کے پاس نہ لے آؤں؛ تاکہ وہ بیعت لیں؟ مروان نے کہا: جی ہاں؛ لہذا وہ شخص حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے گھر گیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ مروان کے پاس آ کر یزید کے ہاتھ پر بیعت لیں۔
حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ نے جواب دیا کہ تم واپس جاؤ۔ (اگر میں چاہوں، تو) میں آ کر بیعت کروں گا۔
شامی آدمی غصہ ہو گیا اور بولا: تم ابھی جا کر بیعت کر لو؛ ورنہ میں تمہارا سر قلم کر دوں گا!
حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ نے جواب دیا کہ تم مجھے ان لوگوں کی بیعت کے لیے بلا رہے ہو، جن سے میں نے اسلام کی خاطر جنگ کی تھی۔
ان الفاظ سے انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اوّلین اصحاب میں سے ہیں؛ لہذا انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کون سا شخص بیعت کے لائق ہے اور کون سا شخص لائق نہیں ہے اور بلاشبہ یزید بیعت کے لائق نہیں تھا۔
اس کے بعد شامی آدمی مروان کے پاس واپس آیا اور اس کے اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے درمیان جو کچھ پیش آیا تھا، اس کو مروان کو بتایا۔ مروان نے اسے حکم دیا کہ وہ خاموش رہے اور لوگوں کو یہ باتیں نہ بتائے۔
بہر حال حضرت سعید رضی الله عنہ بیعت کے لیے نہیں آئے؛ چناں چہ مروان نے انہیں چھوڑ دیا اور اہلِ مدینہ سے یزید کی طرف سے بیعت لینے لگے۔
کچھ عرصہ بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا کا انتقال ہوا۔ اپنے انتقال سے پہلے انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی نمازِ جنازہ حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ پڑھائیں؛ لہذا ان کی وصیت کے مطابق مروان ان کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے آگے نہیں بڑھا؛ بلکہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کا انتظار کیا۔
جب سارے لوگ حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ نمازِ جنازہ پڑھائیں، تو اس وقت شامی آدمی نے مروان سے پوچھا کہ تم نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کیوں نہیں بڑھ رہے ہو؟
مروان نے جواب دیا کہ میں اس شخص کا انتظار کر رہا ہوں، جس کو تم نے قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا (یعنی جب وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت لینے کے لیے آگے نہیں آیا، تو تم نے اس کا سر قلم کرنے کا ارادہ کیا تھا)۔ اس بات کو کہہ کر مروان حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کی طرف اشارہ کر کے بولا۔
یہ سن کر شامی آدمی کو حضرت سعید رضی الله عنہ کے بلند رتبے کا علم ہوا؛ چناں چہ اس نے فوراً استغفار کیا اور اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطی کی معافی مانگی۔ (تاریخ ابن عساکر ۲۱/۸۸ ؛ مستدرک للحاکم، الرقم: ۵۸۵۳ ؛ المعجم الکبیر، الرقم: ۳۴۵)