جاء سيدنا سعيد بن زيد رضي الله عنه مرة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن (أبي) زيدا كان كما رأيت أو كما بلغك (أنه كان يعبد الله لا يشرك به شيئا وإن لم يدرك زمن البعثة)، فأستغفر له؟ قال: نعم، فاستغفر له، فإنه يبعث يوم القيامة أمة وحده (أي يبعث وعنده من الخير والفضل ما يكون عند أمة) (المعجم الكبير، الرقم: ٣٥٢)
ایک مرتبہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یقینًا (میرے والد) زید ایک ایسے شخص تھے، جن کے بارے میں آپ کو علم ہے (کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے تھے اور شرک سے اجتناب کرتے تھے؛ اگرچہ ان کو آپ کی نبوت کا زمانہ نہیں ملا)۔ کیا میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرسکتا ہوں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تم اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے مغفرت کی دعا کر سکتے ہو؛ کیوں کہ وہ قیامت کے دن ایک پوری امت کی بھلائیوں کے ساتھ آئیں گے۔ (المعجم الکبیر، الرقم: ۳۵۲)
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے اندر اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے کا جذبہ
جب مسلمانوں نے دمشق شہر کو فتح کیا، تو اسلامی لشکر کے امیر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو دمشق شہر کا گورنر مقرر کیا۔
اس کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ اُردن کی طرف روانہ ہوئے۔ اردن پہنچ کر انہوں نے وہاں پڑاؤ ڈالا اور دشمن کے مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کر دی۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور حضرت یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو فوج کے قائد مقرر کیے۔
جب حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی کہ عنقریب اسلامی فوج کفار کے خلاف جنگ کرےگی، تو ان کے دل میں ایک شدید جذبہ پیدا ہوا کہ وہ مسلمانوں کی فوج میں شامل ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دیں۔
یہ جذبہ اور شوق ان پر غالب ہوا، تو انہوں نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے اپنا جہاد میں شامل ہونے کے شوق کا اظہار کیا۔ انہوں نے یہ درخواست بھی کی کہ وہ اپنے عُہدے سے بھی سبکدوش کیا جائیں (یعنی ان کی جگہ میں کوئی اور شخص دمشق کا گورنر بنایا جائے)۔
خط میں انہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا اور اس کے بعد انہوں نے لکھا:
میں جہاد میں شرکت کرنے کے معاملے میں پیچھے نہیں رہ سکتا اور آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اپنے اوپر ترجیح نہیں دے سکتا؛ خاص طور پر جب جہاد میرے لیے اپنے رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے؛ لہذا جیسے ہی آپ کو یہ خط موصول ہو، براہ کرم! میری جگہ کسی ایسے شخص کو مقرر کریں، جس کے اندر اس عہدے کی زیادہ خواہش ہو؛ کیوں کہ میں جلد ہی لشکر میں شامل ہونے جا رہا ہوں، ان شاء اللہ۔
جب حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کا خط حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو موصول ہوا، تو انہوں نے کہا: وہ (یعنی سعید) اپنے عہدہ چھوڑنے (اور جہاد میں شامل ہونے کا) پختہ ارادہ کر چکے ہیں؛ اس لیے اب ہم انہیں نہیں روک سکتے۔
اس کے بعد انہوں نے حضرت یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت سعید رضی اللہ عنہ کی جگہ کسی اور کو دمشق کا گورنر مقرر کریں۔ (الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ ۴/۳۴۳)