ذات مرة، صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم جبل حراء فتحرك (الجبل ورجف)، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اثبت حراء، فما عليك إلا نبي، أو صديق، أو شهيد وعدهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: أبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وطلحة، والزبير، وسعد، وابن عوف، وسعيد بن زيد (سنن ابن ماجه، الرقم: ١٣٤)
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ حِرا پر چڑھے ، پہاڑ (خوشی سے) ہلنے لگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کو مخاطب کرکے فرمایا:
اے حِرا! پرسکون ہوجا؛ کیوں کہ تیری پشت پر نبی، صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تجھ پر) ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد، (عبد الرحمن) بن عوف اور سعید بن زید ہیں۔ (سنن ابن ماجہ، الرقم: ۱۳۴)
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی دعا کی قبولیت
ایک موقع پر حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کی پڑوسن اَروی بنت اُویس محمد بن عمرو بن حزم رحمہ الله کے پاس آئی؛ تاکہ وہ اپنے پڑوسی حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کے خلاف شکایت کرے۔
اَروی بنت اویس نے دعویٰ کیا کہ حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ نے اس کی جائیداد میں (یعنی اَروی بنت اویس کی جائیداد میں) اپنی دیوار بنائی ہے۔
چناں چہ اَروی نے محمد بن عمرو رحمہ الله سے کہا کہ وہ حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کے پاس جائیں اور اس کی طرف سے ان سے بات کریں۔
اَروی بنت اویس نے یہ بھی کہا: الله کی قسم! اگر حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ میرا واجبی حق نہیں لوٹائیں گے، تو میں مسجد نبوی میں جا کر تمام لوگوں کے سامنے ان کے اس ظلم کا اعلان کروں گی۔
محمد بن عمرو بن حزم رحمہ الله نے اس کو تنبیہ کی اور اس سے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابی کو (یعنی حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کو) تکلیف نہ پہنچاؤ۔ وہ ایسا آدمی نہیں ہے کہ وہ تجھ پر ظلم کرےگا یا تیرا حق چھین لےگا۔
محمد بن عمرو کے جواب سے اروی خوش نہیں تھی؛ لہذا وہ چلی گئی اور عُمارہ بن عمرو اور عبد الله بن سلِمہ رحمۃ الله علیہما کے پاس گئی اور ان سے اپنی شکایت بیان کی۔ اس کی درخواست پر وہ دونوں حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کے پاس گئے، جو اس وقت مقامِ عقیق میں اپنی جائیداد میں تھے۔
اُن کو دیکھ کر حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ نے اُن سے پوچھا: تم حضرات یہاں کیوں آئے ہو؟ انہوں نے ان سے اروی کی شکایت ذکر کی۔
حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ نے جواب دیا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص کسی کی زمین غصب کرے؛ خواہ وہ زمین ایک بالشت کے بقدر بھی ہو، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئےگا کہ وہ غصب کی ہوئی زمین اس کی گردن میں لٹک رہی ہوگی اور اس غصب کی ہوئی زمین کے ساتھ ساتوں زمینوں کے حصے بھی ملائی ہوئی ہوں گے۔
پھر حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ نے کہا کہ اس کو آنے دو اور اس سے کہو کہ میری زمین کے جس حصے کے بارے میں وہ غلط دعوی کر رہی ہے، وہ اس کو لے لے۔
اس کے بعد حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ نے اس پر بد دعا کی: “اے الله! اگر وہ اس دعوے میں جھوٹی ہے، تو اس کو موت نہ دینا؛ یہاں تک کہ تُو اس کی بینائی چھین لے اور اس کی زمین میں (یا اس کے کنویں میں، جیسا کہ ایک روایت میں وارد ہے) اس کو موت دے دے۔ انہوں نے یہ دعا بھی کی کہ اے الله تعالیٰ! تو اس معاملے میں حق کو مسلمانوں پر ظاہر فرمائے۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ نے فرمایا کہ میں الله تعالیٰ کے نام پر قسم کھاتا ہوں کہ میں اس سے پہلے اس کو اپنی جائیداد میں سے چھ سو ذراع دے چکا ہوں؛ کیوں کہ اس نے اس چھ سو ذراع کے حصے میں مجھ پر جھوٹا دعویٰ کیا ہے۔ میں نے اس کو اپنے مال میں سے یہ حصہ صرف ایک حدیث کی وجہ سے دیا ہے، جو میں نے براہِ راست رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہے۔ پھر انہوں نے مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
اس کے بعد اروی ان کے پاس آئی اور اس نے زمین کا وہ ٹکڑا لے لیا، جس پر حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ نے اپنی دیوار بنائی تھی۔ پھر اس نے اس دیوار کو گِرا دیا اور اس پر اپنے لیے ایک گھر بنا لیا۔
تھوڑے ہی دنوں بعد مقامِ عقیق کے پورے علاقہ میں سخت سیلاب آیا، جس کی وجہ سے دونوں جائیدادوں کی حدود پورے طور پر کھل گئیں اور واضح ہو گئیں۔ اس وقت اروی کا جھوٹا دعویٰ لوگوں کے سامنے ظاہر ہو گیا اور حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کی سچائی سب پر آشکارا ہو گئی۔
ایک ماہ بعد (سیلاب کے بعد) اروی بنت اویس نابینا ہو گئی۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد ایک رات وہ اپنی جائیداد میں چلتے ہوئے کنویں میں گر کر مر گئی۔ اس طرح اروی کے خلاف حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کی بد دعا واقع ہو گئی اور لوگوں کے سامنے ایک حقیقت بن گئی۔
اس واقعہ کے ایک راوی ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم بیان کرتے ہیں کہ جب ہم چھوٹے تھے اور دو آدمیوں میں جھگڑا ہو جاتا تھا، تو ہم بسا اوقات یہ سنتے تھے کہ ایک شخص دوسرے سے کہتا تھا کہ الله تعالیٰ تمہیں اس طرح اندھا کر دے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اروی کو اندھا کر دیا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ اس بد دعا میں اروی سے مراد ایک جانور ہے؛ کیوں کہ اروی پہاڑی بکری کو کہا جاتا ہے؛ مگر بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ یہ حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کی بد دعا کے الفاظ تھے، جب انہوں نے اروی بنت اویس کو بد دعا دی تھی، جس کی وجہ سے وہ نابینا ہو گئی تھی۔ (سیر اعلام النبلاء ۱/۱۰۶ ؛ حلیۃ الاولیاء ۱/۹۷)