کوہِ حرا کا خوشی سے جھومنا

ذات مرة، صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم جبل حراء فتحرك (الجبل ورجف)، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اثبت حراء، فما عليك إلا نبي، أو صديق، أو شهيد وعدهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: أبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وطلحة، والزبير، وسعد، وابن عوف، وسعيد بن زيد (سنن ابن ماجه، الرقم: ١٣٤)

ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ حِرا پر چڑھے ، پہاڑ (خوشی سے) ہلنے لگا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کو مخاطب کرکے فرمایا:

اے حِرا! پرسکون ہوجا؛ کیوں کہ تیری پشت پر نبی، صدیق یا شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تجھ پر) ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد، (عبد الرحمن) بن عوف اور سعید بن زید ہیں۔ (سنن ابن ماجہ، الرقم: ۱۳۴)

خواب میں سعادت ومغفرت کی بشارت

ایک رات حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنی بیماری کے دوران کافی دیر تک بے ہوش پڑے رہے؛ یہاں تک کہ ان کے ارد گرد کے لوگوں نے سمجھا کہ ان کی روح پرواز کر گئی ہے؛ چناں چہ انہوں نے ان کو کپڑے سے ڈھانپ دیا اور ان سے الگ ہو گئے۔

ان کی اہلیہ ام کلثوم بنت عقبہ نے صبر اور نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی (جیسا کہ ہمیں قرآن کریم میں اس کا حکم دیا گیا ہے)۔

حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ پر کافی دیر تک بے ہوشی طاری رہی۔ جب انہیں ہوش آیا، تو سب سے پہلے انہوں نے تکبیر کہی۔ ان کی تکبیر سن کر گھر کے افراد اور جو لوگ ان کے ارد گرد تھے، انہوں نے بھی تکبیر کہی۔

اس کے بعد حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: کیا میں بے ہوش ہو گیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔

پھر انہوں نے ان سے کہا: تم نے سچ کہا۔ (جب میں بے ہوش تھا، اس دوران) مجھے دو فرشتے (آدمیوں کی شکل میں) لے گئے، جو (اپنی شکل وصورت سے) بہت سخت لگ رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا: آگے بڑھو! ہم تمہیں اللہ تعالی کے پاس حساب کتاب کے لیے لے جا رہے ہیں، جو قدرت والا، پناہ دینے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

چناں چہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھے؛ یہاں تک کہ ان کی ملاقات ایک فرشتے سے ہوئی، جو انسان کی شکل میں تھے۔ اس فرشتے نے ان سے پوچھا کہ وہ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان کو اللہ تعالیٰ کے پاس حساب کتاب کے لیے لے جا رہے ہیں، جو قدرت والا، پناہ دینے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

پھر اس فرشتے نے ان سے کہا کہ ان کو دنیا میں واپس لے جاؤ؛ کیوں کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے، جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی ماؤں کے پیٹ میں ہی سعادت اور مغفرت لکھ دیا ہے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کچھ زیادہ مدت تک دنیا میں رہنے کی اجازت دی ہے؛ تاکہ ان کے بیٹے ان کی صحبت سے مستفید ومستفیض ہوں؛ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا سے لے جائیں۔

اس واقعہ کے بعد حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک ماہ تک زندہ رہے۔ ایک ماہ گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان کا انتقال ہو گیا۔ (دلائل النبوۃ ۷/۴۳، تاریخ ابن عساکر ۳۵/۲۹۷)

Check Also

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں فتویٰ دینے کا شرف

كان سيدنا عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه من الصحابة الكرام الذين شرفهم الله …