رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سر پر عمامہ باندھنا‎

عندما أمّر رسول الله صلى الله عليه وسلم سيدنا عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه على جيش دومة الجندل، عمّمه بيده الشريفة. (من أسد الغابة ٣/١٤١)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو دومۃ الجَندل کے لشکر کا امیر مقرر فرمایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے سر پر عمامہ باندھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو دومۃ الجندل کے لشکر کا امیر مقرر کرنا

ہجرت کے چھٹے سال ماہ شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم سفر کی تیاری کرو؛ کیوں کہ میں تمہیں آج یا کل ایک سریہ کا امیر بنا کر بھیجنے والا ہوں ان شاء اللہ۔

اگلی صبح جب حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تشریف لائے، تو وہ سیاہ پگڑی پہنے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی پگڑی کھولی اور اس کو ان کے سر پر اس طرح باندھا کہ پگڑی کا شملہ (دم) ان کی پِیٹھ کے پیچھے لٹک رہا تھا اور شملہ کی لمبائی تقریباً چار انگلیوں کے برابر تھی۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے ابن عوف! تمہیں عمامہ اسی طرح باندھنا چاہیئے؛ کیوں کہ یہ عربوں کا طریقہ ہے اور یہ بہتر ہے۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو لشکر کا امیر مقرر فرمایا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جھنڈا ان کے حوالے کر دیں۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان فرمائی، اپنے آپ پر درود وسلام بھیجا اور فرمایا:

اے ابن عوف! جھنڈا اٹھاؤ اور اللہ کی راہ میں لشکر کے ساتھ نکلو۔ ان لوگوں سے لڑو، جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ مالِ غنیمت نہ چراؤ۔ اپنے عہد (جو تم دشمن سے کرتے ہو) کو نہ توڑو۔ دشمن کی لاشوں کو مسخ نہ کرو اور بچوں کو قتل نہ کرو۔ یہ اللہ کا حکم ہے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سات سو آدمیوں کے لشکر کے ساتھ قبیلہ کلب کی طرف روانہ کیا، جو مقامِ دومۃ الجندل میں رہتے تھے۔

روانگی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اگر وہاں کے لوگ (اسلام) قبول کر لیں، تو تم ان کے سردار کی بیٹی سے شادی کر لینا۔

اس کے بعد حضرت عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے؛ یہاں تک کہ دومۃ الجندل کے لوگوں کے پاس پہنچے۔ وہ تین دن وہاں رہے اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہے۔

تیسرے دن دومۃ الجندل کے سردار اصبغ (جو عیسائی تھا) نے اسلام قبول کیا۔ ان کے قبیلے کے بہت سے لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا اور جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا، وہ جزیہ ادا کرنے پر راضی ہو گئے۔

چناں چہ حضرت عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھ کر صورت حال سے آگاہ کیا اور اس بات کی وضاحت طلب کی کہ وہ ان کے سردار کی بیٹی سے شادی کریں یا نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے خط کا جواب دیا کہ وہ ان کے سردار یعنی اصبغ کی بیٹی سے شادی کر لیں؛ چناں چہ حضرت عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ نے ان کی بیٹی سے نکاح کیا، جن کا نام تماضر رضی اللہ عنہا تھا۔ (البزار، الرقم: ۶۱۷۵ ؛ مجمع الزوائد، الرقم: ۹۶۱۵ ؛ شرح الزرقانی، الرقم: ۳/۱۳۳)

Check Also

حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی

حدّد سيدنا عمر رضي الله عنه قبل موته ستة من الصحابة الكرام رضي الله عنهم …