فضائلِ صدقات – ۲۰

حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کی سخاوت

ابو الحسن مدائنی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت امام حسن اور امام حسین اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم حج کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ راستہ میں ان کے سامان کے اونٹ ان سے جدا ہو گئے۔

یہ بھوکے، پیاسے چل رہے تھے۔ ایک خیمہ پر ان کا گزر ہوا۔ اس میں ایک بوڑھی عورت تھی۔ ان حضرات نے اس سے پوچھا کہ ہمارے پینے کو کوئی چیز (پانی یا دودھ، لسّی وغیرہ) تمہارے پاس موجود ہے؟ اس نے کہا: ہے۔

یہ لوگ اپنی اونٹنیوں پر سے اترے۔ اس بڑھیا کے پاس ایک بہت معمولی سی بکری تھی۔ اس کی طرف اشارہ کر کے اس نے کہا کہ اس کا دودھ نکال لو اور اس کو تھوڑا تھوڑا پی لو۔ ان حضرات نے اس کا دودھ نکالا اور پی لیا۔

پھر انہوں نے پوچھا کہ کوئی کھانے کی چیز بھی ہے؟ اس بڑھیا نے کہا کہ بکری ہے۔ اس کو تم میں سے کوئی ذبح کر لے، تو میں پکا دوں گی۔ انہوں نے اس کو ذبح کیا۔ اس نے پکایا۔

یہ حضرات کھا، پی کر جب شام کو چلنے لگے، تو انہوں نے اس بڑھیا سے کہا کہ ہم ہاشمی لوگ ہیں۔ اِس وقت حج کے ارادہ سے جا رہے ہیں۔ اگر ہم زندہ، سلامت واپس مدینہ منورہ پہنچ جائیں، تو تُو ہمارے پاس آنا۔ تیرے اس احسان کا بدلہ دیں گے۔

یہ حضرات تو فرما کر چلے گئے۔ شام کو جب اس کا خاوند (کہیں جنگل وغیرہ سے) آیا، تو اس بڑھیا نے ہاشمی لوگوں کا قصہ سنایا۔ وہ بہت خفا ہوا کہ تُو نے اجنبی لوگوں کے واسطے بکری ذبح کر ڈالی۔ معلوم نہیں کون تھے؟ کون نہیں تھے؟ پھر کہتی ہے کہ ہاشمی تھے۔ غرض وہ خفا ہو کر چپ ہو گیا۔

کچھ زمانہ کے بعد ان دونوں میاں بیوی کو غربت نے جب بہت ستایا، تو یہ محنت مزدوری کی نیت سے مدینہ منورہ گئے۔ دن بھر مینگنیاں چگا کرتے اور ان کو بیچ کر گزر کیا کرتے۔

ایک دن وہ بڑھیا مینگنیاں چگ رہی تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے دروازہ کے آگے تشریف رکھتے تھے۔ جب یہ وہاں کو گزری، تو اس کو دیکھ کر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کو پہچان لیا اور اپنے غلام کو بھیج کر اس کو اپنے پاس بلوایا اور فرمایا کہ اللہ کی بندی! تُو مجھے بھی پہچانتی ہے؟ اس نے کہا: میں نے تَو نہیں پہچانا۔

آپ نے فرمایا کہ میں تیرا وہی مہمان ہوں، دودھ اور بکری والا۔ بڑھیا نے پھر بھی نہ پہچانا اور کہا: کیا خدا کی قسم! تم وہی ہو؟ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں وہی ہوں اور یہ فرما کر آپ نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ اس کے لیے ایک ہزار بکریاں خرید دی جائیں۔

چناں چہ فوراً خریدی گئیں اور ان بکریوں کے علاوہ ایک ہزار دینار (اشرفیاں) نقد بھی عطا فرمائے اور اپنے غلام کے ساتھ اس بڑھیا کو چھوٹے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ بھائی نے کیا بدلہ عطا فرمایا؟ اس نے کہا: ایک ہزار بکریاں اور ایک ہزار دینار۔

یہ سن کر اتنی ہی مقدار دونوں چیزوں کی حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عطا فرمائی۔ اس کے بعد اس کو حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔

انہوں نے تحقیق فرمایا کہ ان دونوں حضرات نے کیا کیا مرحمت فرمایا اور جب معلوم ہوا کہ یہ مقدار ہے، تو انہوں نے دو ہزار بکریاں اور دو ہزار دینار عطا فرمائے اور یہ فرمایا کہ اگر تُو پہلے مجھ سے مل لیتی، تو میں اس سے بہت زیادہ دیتا۔

یہ بڑھیا چار ہزار بکریاں اور چار ہزار دینار (اشرفیاں) لے کر خاوند کے پاس پہنچی کہ اُس ضعیف اور کمزور بکری کا بدلہ ہے۔ (فضائلِ صدقات، ص ۶۹۸-۷۰۰)

Check Also

فضائلِ اعمال – ۲۵

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وسعت طلب کرنے پر تنبیہ اور حضور صلی اللہ …