اگر کسی شخص کا حالتِ احرام میں انتقال ہو جائے (خواہ اس نے حج کا احرام باندھا ہو یا عمرہ کا)، اس کی تجہیز و تکفین عام مردوں کی طرح کی جائے گی یعنی اس کو عام طریقہ پر غسل دیا جائے گا اور کفن پہنایا جائےگا ۔ [۴]
ڈوبنے والے کے غسل کا طریقہ
اگر کسی شخص کا ڈوب کر انتقال ہو جائے، تو اس کو پانی سے نکالنے کے بعد غسل دینا فرض ہے۔ پانی میں ڈوب کر مرنے سے فرضیت غسل ادا نہیں ہوگی، کیوں کہ میّت کو غسل دینا زندہ لوگوں پر فرض ہے، لہذا پانی میں ڈوبنے سے یہ فرض ادا نہیں ہوگا؛ بلکہ لوگوں پر اس کو غسل دینا فرض ہوگا۔ ہاں، اگر پانی سے نکالنے سے پہلے نکالنے والے لوگ اس کو غسل دینے کی نیت سے پانی میں ہلائے تو یہ غسل کے لیےکافی ہوجائے گا، اگر چہ یہ طریقہ غسل کے سنت طریقہ کے مطابق نہیں ہوگا۔
مذکورہ بالا مسئلہ میں اگر یہ صورت پیش آئے کہ ڈوبنے والے کو پانی سے نکالنے کے بعد غسل کے بغیر اس کی نماز جنازہ ادا کردی جائے، تو نماز جنازہ درست ہوگی (اگر چہ لوگوں نے میت کو غسل نہیں دیا)۔ نماز جنازہ درست ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد اس کا پورا جسم دُھل چکا ہے اور نمازِ جنازہ کی صحت میت کے بدن کے دھل جانے پر موقوف ہے اور یہاں پر یہ پایا گیا۔
نوٹ:- اس صورت میں اگر چہ نمازِ جنازہ درست ہوگی لیکن میت کو غسل نہ دینے کی وجہ سے لوگ گنہگار ہوں گے۔ [۵]
Source: http://ihyaauddeen.co.za/?p=1662
[٤] والمحرم كالحلال قال الشامي : قوله ( والمحرم كالحلال ) أي فيغطي رأسه وتطيب أكفانه خلافا للشافعي رحمه الله تعالى (رد المحتار ۲/۲٠٤)
[۵] ( و ) لذا قال ( لو وجد ميت في الماء فلا بد من غسله ثلاثا) لأنا أمرنا بالغسل فيحركه في الماء بنية الغسل ثلاثا فتح وتعليله يفيد أنهم لو صلوا عليه بلا إعادة غسله صح وإن لم يسقط وجوبه عنهم فتدبر قال الشامي : قوله ( ولذا ) أي لكون النية ليست شرطا لصحة الطهارة بل شرط لإسقاط الفرض عن المكلفين قوله ( فلا بد ) أي في تحصيل الغسل المسنون وإلا فالشرط مرة وكأنه يشير بلا بد إلى أنه بوجوده في الماء لم يسقط غسله المسنون فضلا عن الشرط تأمل قوله ( وتعليله ) أي تعليل الفتح بقوله لأنا أمرنا الخ أي ولم يقل في التعليل لأنه لم يطهر ط (رد المحتار ۲/۲٠٠)