حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا:
سمعت أذني مِن فِيْ رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول: طلحة والزبير جاراي في الجنة. (جامع الترمذي، الرقم: ٣٧٤١)
میرے کان نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک منہ سے یہ ارشاد سنا:
طلحہ اور زبیر جنت میں میرے پڑوسی ہوں گے۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو دنیا کی دولت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے غافل ہونے کا خوف
ایک مرتبہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو حَضْرَمَوْتْ سے سات لاکھ درہم ملے۔ اس رات جب وہ سونے کے لیے لیٹے، تو وہ بے چین تھے اور اِدھر اُدھر کروٹیں بدل رہے تھے۔
ان کی بے قراری کو دیکھ کر ان کی اہلیہ محترمہ نے ان سے پوچھا: آپ کیوں پریشان لگ رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جس شخص کے گھر میں اتنا زیادہ مال ہو، وہ اپنے رب کو کیسے یاد کرےگا ؟ (یعنی مجھے ڈر ہے کہ یہ مال مجھے اللہ تعالیٰ اور اس کے ذکر سے غافل کر دےگا)۔
ان کی اہلیہ محترمہ نے مشورہ دیا کہ وہ اس مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تقسیم کر دیں۔
یہ سن کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو تسلی ہوئی اور فرمایا: اللہ آپ پر رحم فرمائے! آپ واقعی ایک نیک اور ہدایت یافتہ خاتون ہیں اور ایک نیک، ہدایت یافتہ آدمی کی صاحبزادی ہیں۔ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی: ام کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں۔
اگلی صبح انہوں نے اس مال کو مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم میں تقسیم کر دیا۔ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خدمت میں انہوں نے وہ مال بھیجا تھا، ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
جب ان کی اہلیہ محترمہ نے ان کو سارا مال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تقسیم کرتے ہوئے دیکھا، تو انہوں نے ان سے کہا: کیا اس مال میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے (تاکہ ہم اس سے اپنی ضرورتیں پوری کر سکیں)؟ تو انہوں نے ان سے کہا کہ جو کچھ باقی رہ گیا ہے، آپ اس کو رکھ سکتی ہیں۔ باقی ماندہ مال تقریبا ایک ہزار درہم تھا۔ (سیر اعلام النبلاء ۳/۲۴)