علمائے آخرت کی بارہ علامات
نویں علامت:
نویں علامت یہ ہے کہ اس کی ہر حرکت وسکون سے اللہ جل شانہ کا خوف ٹپکتا ہو۔
اس کی عظمت وجلال اور ہیبت کا اثر اس شخص کی ہر ادا سے ظاہر ہوتا ہو۔ اس کے لباس سے، اس کی عادات سے، اس کے بولنے سے، اس کے چپ رہنے سے؛ حتی کہ ہر حرکت اور سکون سے یہ بات ظاہر ہوتی ہو۔ اس کی صورت دیکھنے سے اللہ تعالیٰ شانہ کی یاد تازہ ہوتی ہو۔ سکون، وقار، مسکنت، تواضع اس کی طبیعت بن گیا ہو۔
بیہودہ گوئی، لغو کلامی، تکلف سے باتیں کرنے سے گریز کرتا ہو کہ یہ چیزیں فخر اور اَکڑ کی علامات ہیں، اللہ تعالیٰ شانہ سے بے خوفی کی دلیل ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ علم سیکھو اور علم کے لیے سکون اور وقار سیکھو۔ جس سے علم حاصل کرو، اس کے سامنے نہایت تواضع سے رہو۔ جابر علماء میں سے نہ بنو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت کے بہترین افراد وہ ہیں، جو مَجْمَع میں اللہ تعالیٰ کی وُسعتِ رحمت سے خوش رہتے ہوں اور تنہائیوں میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خوف سے روتے ہوں۔ ان کے بدن زمین پر رہتے ہوں اور ان کے دل آسمان کی طرف لگے رہتے ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ سب سے بہتر عمل کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ناجائز امور سے بچنا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ شانہ کے ذکر سے تیری زبان تر وتازه رہے۔ کسی نے پوچھا کہ بہترین ساتھی کون ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص ہے کہ اگر تُو نیک کام سے غفلت کرے، تو وہ تجھے مُتَنَبّہ کرے اور اگر تجھے خود یاد ہو، تو اس میں تیری اِعانت کرے۔ کسی نے پوچھا کہ بُرا ساتھی کون ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہے کہ اگر تجھے نیک کام سے غفلت ہو، تو وہ مُتَنَبّہ نہ کرے اور تُو خود کرنا چاہے، تو اس میں تیری اِعانت نہ کرے۔ کسی نے پوچھا کہ سب سے بَڑا عالم کون ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ شانہ سے ڈرنے والا ہو۔ کسی نے پوچھا کہ ہم کن لوگوں کے پاس زیادہ تر اپنی نَشِست رکھیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن کی صورت سے اللہ تعالی کی یاد تازہ ہوتی ہو۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آخرت میں زیادہ بے فکر وہ شخص ہوگا، جو دنیا میں فکرمند رہا ہو اور آخرت میں زیادہ ہنسنے والا وہ ہوگا، جو دنیا میں زیادہ رونے والا ہو۔ (فضائلِ صدقات، ص ۴۹۵-۴۹۶)