حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا اپنے باپ کو انکار
حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ زمانہ جاہلیت میں اپنی والدہ کے ساتھ نَنھیال جا رہے تھے۔ بنو قیس نے قافلہ کو لُوٹا، جس میں زید رضی الله عنہ بھی تھے۔ ان کو مکہ کے بازار میں لا کر بیچا۔
حکیم بن حزام رضی الله عنہ نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کے لیے ان کو خرید لیا۔ جب حضور صلی الله علیہ وسلم کا نکاح حضرت خدیجہ رضی الله عنہا سے ہوا، تو انہوں نے زید رضی الله عنہ کو حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کر دیا۔
زید رضی الله عنہ کے والد کو ان کے فراق کا بہت صدمہ تھا اور ہونا ہی چاہیئے تھا کہ اولاد کی محبت فطری چیز ہے۔ وہ زید رضی الله عنہ کے فراق میں روتے اور اشعار پڑھتے پِھرا کرتے تھے۔
اکثر جو اشعار پڑھتے تھے، ان کا مختصر ترجمہ یہ ہے کہ
میں زید کی یاد میں روتا ہوں اور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہے؛ تاکہ اس کی امید کی جائے یا موت نے اس کو نمٹا دیا۔
خدا کی قسم! مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ تجھے اے زید! نرم زمین نے ہلاک کیا یا کسی پہاڑ نے ہلاک کیا۔
کاش، مجھے یہ معلوم ہو جاتا کہ تُو عمر بھر میں کبھی بھی واپس آئےگا یا نہیں۔ ساری دنیا میں میری انتہائی غرض تیری واپسی ہے۔
جب آفتاب طلوع ہوتا ہے، جب بھی مجھے زید ہی یاد آتا ہے اور جب بارش ہونے کو ہوتی ہے، جب بھی اس کی یاد مجھے ستاتی ہے۔
اور جب ہوائیں چلتی ہیں، تو وہ بھی اس کی یاد کو بَھڑکاتی ہیں۔ ہائے! میرا غم اور میرا فکر کس قدر طویل ہو گیا۔
میں اس کی تلاش اور کوشش میں ساری دنیا میں اونٹ کی تیز رفتاری کو کام میں لاؤں گا اور دنیا کا چکّر لگانے سے نہیں اُکتاؤں گا۔
اونٹ چلنے سے اُکتا جائیں، تو اُکتا جائیں؛ لیکن میں کبھی بھی نہیں اکتاؤں گا۔ اپنی ساری زندگی اسی میں گزار دوں گا۔
ہاں، میری موت ہی آ گئی، تو خیر کہ موت ہر چیز کو فنا کر دینے والی ہے۔ آدمی خواہ کتنی ہی امیدیں لگاویں؛ مگر میں اپنے بعد فلاں، فلاں رشتہ داروں اور آل، اولاد کو وصیت کر جاؤں گا کہ وہ بھی اسی طرح زید کو ڈھونڈتے رہیں۔
غرض یہ اشعار وہ پڑھتے تھے اور روتے ہوئے ڈھونڈتے پِھرا کرتے تھے۔
اتفاق سے ان کی قوم کے چند لوگوں کا حج کو جانا ہوا اور انہوں نے زید رضی الله عنہ کو پہچانا۔ باپ کا حال سنایا۔ شعر سنائے۔ ان کی یاد وفراق کی داستان سنائی۔
حضرت زید رضی الله عنہ نے ان کے ہاتھ تین شعر کہہ کر بھیجے، جن کا مطلب یہ تھا کہ
میں یہاں مکہ میں ہوں۔ خیریت سے ہوں۔ تم غم اور صدمہ نہ کرو۔
میں بڑے کریم لوگوں کی غلامی میں ہوں۔
ان لوگوں نے جا کر زید رضی الله عنہ کی خیر وخبر ان کے باپ کو سنائی اور وہ اشعار سنائے، جو زید رضی الله عنہ نے کہہ کر بھیجے تھے اور پتہ بتایا۔
زید رضی الله عنہ کے باپ اور چچا فدیہ کی رقم لے کر ان کو غلامی سے چھڑانے کی نیت سے مکہ مکرمہ پہنچے۔ تحقیق کی۔ پتہ چلایا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ عرض کیا:
اے ہاشم کی اولاد اور اپنی قوم کے سردار! تم لوگ حرم کے رہنے والے ہو اور الله کے گھر کے پڑوسی۔ تم خود قیدیوں کو رَہا کراتے ہو، بھوکوں کو کھانا دیتے ہو۔ ہم اپنے بیٹے کی طلب میں تمہارے پاس پہنچے ہیں، ہم پر احسان کرو اور کرم فرماؤ اور فدیہ قبول کر لو اور اس کو رہا کر دو؛ بلکہ جو فدیہ ہو، اس سے زیادہ لے لو۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے؟ عرض کیا: زید کی طلب میں ہم لوگ آئے ہیں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بس اتنی سی بات ہے۔ عرض کیا کہ حضور! بس یہی غرض ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کو بلا لو اور اس سے پوچھ لو۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے، تو بغیر فدیہ ہی کے وہ تمہاری نذر ہے اور اگر نہ جانا چاہے، تو میں ایسے شخص پر جبر نہیں کر سکتا، جو خود نہ جانا چاہے۔ انہوں نے عرض کیا: آپ نے استحقاق سے بھی زیادہ احسان فرمایا۔ یہ بات خوشی سے منظور ہے۔
حضرت زید رضی الله عنہ بلائے گئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان کو پہچانتے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں! پہچانتا ہوں، یہ میرے باپ ہیں اور یہ میرے چچا۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میرا حال بھی تمہیں معلوم ہے، اب تمہیں اختیار ہے کہ میرے پاس رہنا چاہو، تو میرے پاس رہو۔ ان کے ساتھ جانا چاہو، تو اجازت ہے۔
حضرت زید رضی الله عنہ نے عرض کیا کہ حضور! میں آپ کے مقابلہ میں بَھلا کس کو پسند کر سکتا ہوں؟ آپ میرے لیے باپ کی جگہ بھی ہیں اور چچا کی جگہ بھی۔
ان دونوں باپ، چچا نے کہا کہ زید! غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتے ہو اور باپ چچا اور سب گھر والوں کے مقابلہ میں غلام رہنے کو پسند کرتے ہو؟
زید رضی الله عنہ نے کہا کہ ہاں، میں نے ان میں (حضور صلی الله علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرکے) ایسی بات دیکھی ہے، جس کے مقابلہ میں، میں کسی چیز کو بھی پسند نہیں کر سکتا۔
حضور صلی الله علیہ نے جب یہ جواب سنا، تو ان کو گود میں لے لیا اور فرمایا کہ میں نے اس کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ زید رضی الله عنہ کے باپ اور چچا بھی یہ منظر دیکھ کر نہایت خوش ہوئے اور خوشی سے ان کو چھوڑ کر چلے گئے۔
حضرت زید رضی الله عنہ اس وقت بچے تھے۔ بچپن کی حالت میں سارے گھر کو، عزیز واقارب کو غلامی پر قربان کر دینا جس محبت کا پتہ دیتا ہے، وہ ظاہر ہے۔ (فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص ۲۳۰-۲۳۲)