رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی تعریف

ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

نعم الرجل أبو عبيدة بن الجراح (سنن الترمذي، الرقم: ٣٧٩٥)

ابو عبیدہ بن جراح بہت اچھے انسان ہیں۔

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا دنیا کے مال ومتاع سے اجتناب

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے بیت المقدس فتح کرنے کے لیے روانہ ہوئے، تو راستے میں ملکِ شام میں قیام کیا؛ تاکہ وہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاقات کر سکیں، جو وہاں قیام پذیر تھے۔

چنانچہ جب وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کی ملاقات کے لیے حاضر ہوئے، تو انہوں نے ان سے پوچھا: میرے بھائی کہاں ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ کس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو بتایا کہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ابھی ان سے ملنے کے لیے آ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ایک سادہ اونٹ پر سوار ہو کر تشریف لائے۔

جب حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بہت زیادہ خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور فوراً ان سے معانقہ کیا۔

اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور وہاں موجود تمام لوگوں کے سامنے  خطبہ دیا۔ (حلیۃ الاولیاء ۱/۱۴۶؛ کتاب الزھد لابن المبارک، الرقم: ۵۸۶)

ملکِ شام میں قیام کے دوران حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر تشریف لانے کی دعوت دی؛ لیکن حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے گھر تشریف لانے کی دعوت نہیں دی؛ کیونکہ اس وقت ان کے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔

چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے قریبی تعلق تھا؛ لہذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے ابو عبیدہ! تمہارے علاوہ لشکر کے ہر ایک امیر نے مجھے اپنے گھر بلایا۔

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اے امیر المومنین! اگر آپ میرے گھر تشریف لائیں گے، تو یقیناً آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے۔

اس کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس عظیم صحابی کے گھر تشریف لانے کی خواہش ظاہر کی؛ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان کو بطور مہمان اپنے گھر بلایا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب ان کے گھر میں داخل ہوئے، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا؛ سِوائے سوکھی روٹی کے چند ٹکڑے، پانی کا مشکیزہ، ایک تلوار، ایک ڈھال، زِین کا تھیلا اور زین کا کمبل کے، جس کو وہ رات کو سوتے وقت بستر اور تکیے کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا، تو رونے لگے اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو گلے لگا کر فرمایا:

واقعی تم میرے بھائی ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ آپ کے علاوہ میرے ساتھیوں میں سے جس سے بھی میری ملاقات ہوئی ہے، دنیا نے ان کو (کچھ نہ کچھ) متاثر کیا ہے (کیونکہ انہوں نے دنیا کی چیزوں سے کچھ نہ کچھ استفادہ کیا ہیں)۔

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اے امیر المومنین! کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ اگر آپ  میرے گھر آئیں گے، تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے (اس میں دنیا کا مال نہ ہونے کی وجہ سے)؟

ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر ان سے فرمایا کہ تم (اپنی ضرورتوں کے لیے) دنیا کا تھوڑا سا سامان اپنے پاس کیوں نہ رکھے؟

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اے امیر المومنین! میرا یہ سامان اس دنیا کے سفر کے لیے کافی ہے؛ یہاں تک کہ میں اپنی قبر میں پہنچ جاؤں۔ (حلیۃ الاولیاء ۱/۱۴۶؛ کتاب الزھد لابن المبارک، الرقم: ۵۸۶؛ الاکتفاء ۳/۲۹۰)

Check Also

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ‏اعتماد

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ اگر رسول اللہ …