علمائے آخرت کی بارہ علامات
آٹھویں علامت:
آٹھویں علامت یہ ہے کہ اُس کا یقین اور ایمان اللہ تعالیٰ شانہ کے ساتھ بڑھا ہوں ہو اور اس کا بہت زیادہ اہتمام اس کو ہو۔ یقین ہی اصل رأسُ المال ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یقین ہی پورا ایمان ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یقین کو سکھو۔
اور اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یقین والوں کے پاس اہتمام سے بیٹھو۔ ان کا اتباع کرو؛ تاکہ اس کی برکت سے تم میں یقین کی پختگی پیدا ہو۔ اس کو حق تعالی شانہ کی قدرت کاملہ اور صفات کا ایسا ہی یقین ہو، جیسا کہ چاند سورج کے وجود کا۔
وہ اس کا کامل یقین رکھتا ہو کہ ہر چیز کو کرنے والی صرف وہی ایک پاک ذات ہے اور یہ دنیا کے سارے اسباب اس کے ارادہ کے ساتھ مسخر ہیں، جیسا کہ مارنے والے کے ہاتھ میں لکڑی کہ اس میں لکڑی کو کوئی شخص بھی دخیل نہیں سمجھتا اور جب یہ پختہ ہو جائےگا، تو اس کو توکّل، رضا اور تسلیم سہل ہو جائےگی۔
نیز اس کو اس کا پختہ یقین ہو کہ روزی کا ذمہ صرف اللہ جل شانہ کا ہے اور اس نے ہر شخص کی روزی کا ذمہ لے رکھا ہے۔ جو اس کے مقدر میں ہے، وہ اس کو بہر حال مل کر رہےگا اور جو مقدر میں نہیں ہے، وہ کسی حال میں بھی نہ مل سکےگا۔
اور جب اس کا یقین پختہ ہو جائےگا، تو روزی کی طلب میں اعتدال پیدا ہو جائےگا۔ حرص اور طمع جاتی رہےگی۔ جو چیز میسر نہ ہوگی، اس پر رنج نہ ہوگا۔
نیز اس کو اس کا یقین ہو کہ اللہ جل شانہ ہر بھلائی اور برائی کا ہر وقت دیکھنے والا ہے۔ ایک ذرّہ کے برابر کوئی نیکی یا برائی ہو، تو وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور اس کا بدلہ نیک یا بد ضرور ملےگا۔
وہ نیک کام کے کرنے پر ثواب کا ایسا ہی یقین رکھتا ہو، جیسا کہ روٹی کھانے سے پیٹ بھرنا اور برے کام پر عذاب کو ایسا ہی یقینی سمجھتا ہو، جیسا کہ سانپ کے کاٹنے سے زہر کا چڑھنا (وہ نیکی کی طرف ایسا ہی مائل ہو، جیسا کہ کھانے پینے کی طرف اور گناہ سے ایسا ہی ڈرتا ہو، جیسا کہ سانپ بِچّھو سے) اور جب یہ پختہ ہو جائےگا، تو ہر نیکی کے کمانے کی اس کو پوری رغبت ہوگی اور ہر برائی سے بچنے کا پورا اہتمام ہوگا۔ (فضائلِ صدقات، ص 494-495)