فضائلِ اعمال – ۱۹

تبوک کے سفر میں قومِ ثمود کی بستی پر گذر

غزوہ تبوک مشہور غزوہ ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری غزوہ ہے۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ روم کا بادشاہ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کر رہا ہے اور بہت بڑا لشکر لے کر شام کے راستے سے مدینہ کو آ رہا ہے۔ اس خبر پر ۵ رجب ۹ ھجری پنج شنبہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مقابلہ کے لیے مدینہ طیبہ سے روانہ ہو گئے۔

چونکہ زمانہ سخت گرمی کا تھا اور مقابلہ بھی سخت تھا، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف اعلان فرما دیا تھا کہ روم کے بادشاہ سے مقابلہ کے لیے چلنا ہے، تیاری کر لی جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کے لیے چندہ فرمانا شروع کیا۔

یہی لڑائی ہے، جس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ گھر کا سارا سامان لے آئے اور جب ان سے پوچھا کہ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ تو فرمایا کہ ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ آیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر کے پورے سامان میں سے آدھا لے آئے، جس کا قصہ نمبر (۴) باب نمبر (۶) میں آتا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک تہائی لشکر کا پورا سامان مُہیّا فرمایا اور اسی طرح ہر شخص اپنی حیثیت سے زیادہ ہی لایا۔

اس کے باوجود چونکہ عام طور سے تنگی تھی، اس لیے دس دس آدمی ایک اونٹ پر تھے کہ نوبت بہ نوبت اس پر سوار ہوتے تھے؛ اسی وجہ سے اس لڑائی کا نام جیش العسرة (تنگی کا لشکر) بھی تھا۔

یہ لڑائی نہایت ہی سخت تھی کہ سفر بھی دور کا تھا اور موسم بھی اس قدر سخت کہ گرمی کی انتہا نہیں تھی۔

اور اس کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ میں کھجور کے پکنے کا زمانہ زور پر تھا کہ سارے باغ بالکل پکے ہوئے کھڑے تھے اور کھجور ہی پر مدینہ طیبہ والوں کی زندگی کا زیادہ دار ومدار تھا کہ سال بھر کی روزی جمع کرنے کا گویا یہی زمانہ تھا۔

ان حالات میں یہ وقت مسلمانوں کے لیے نہایت سخت امتحان کا تھا کہ ادھر اللہ کا خوف، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد، جس کی وجہ سے بغیر جائے نہ بنتی تھی اور دوسری جانب یہ ساری دِقّتیں کہ ہر وقت مستقل روک تھی۔ بالخصوص سال بھر کی محنت اور پکے پکائے درختوں کا یوں بے یار ومددگار چھوڑ جانا جتنا مشکل تھا، وہ ظاہر ہے؛ مگر اس سب کے باوجود اللہ کا خوف ان حضرات پر غالب تھا۔

اس لیے بجز منافقین اور معذورین، جن میں عورتیں اور بچے بھی داخل تھے اور وہ لوگ بھی جو بضرورت مدینہ طیبہ میں چھوڑے گئے یا کسی قسم کی سواری نہ مل سکنے کی وجہ سے روتے ہوئے رہ گئے تھے، جن کے بارے میں آیت: تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ (توبہ: ۹۲) نازل ہوئی اور سب ہی حضرات ہم رِکاب تھے؛ البتہ تین حضرات بلا عذر کے، شریک نہیں تھے، جن کا قصہ آئندہ آ رہا ہے۔

راستہ میں قومِ ثمود کی بستی پر گذر ہوا، تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دامن سے اپنے چہرہ انور کو ڈھانک لیا اور اونٹنی کو تیز کر دیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی حکم فرمایا کہ یہاں سے تیز چلو اور ظالموں کی بستیوں میں سے روتے ہوئے گذرو اور اس سے ڈرتے ہوئے گذرو کہ تم پر بھی خدا نخواستہ وہ عذاب کہیں نازل نہ ہو جائے، جو اُن پر نازل ہوا تھا۔

ف: اللہ کا پیارا نبی اور لاڈلا رسول صلی اللہ علیہ وسلم عذاب والی جگہ سے ڈرتا ہوا، خوف کرتا ہوا گذرتا ہے اور اپنے جاں نثار دوستوں کو جو اس سخت مجبوری کے وقت میں بھی جاں نثاری کا ثبوت دیتے ہیں، روتے ہوئے جانے کا حکم فرماتا ہے کہ خدا نخواستہ وہ عذاب اُن پر نہ نازل ہو جائے۔

ہم لوگ کسی بستی میں زلزلہ آ جائے، تو اس کو سیر گاہ بناتے ہیں۔ کھنڈروں کی تفریح کو جاتے ہیں اور رونا تو دَرْکِنار، رونے کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے۔ (فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص ۳۸-۴۰)

Check Also

فضائلِ صدقات – ۱۱

علمائے آخرت کی بارہ علامات چھٹی علامت: چھٹی علامت علمائے آخرت کی یہ ہے کہ …