علمائے آخرت کی بارہ علامات
پانچویں علامت
پانچویں علامت علمائے آخرت کی یہ ہے کہ سلاطین اور حکام سے دور رہیں۔ (بلا ضرورت کے) ان کے پاس ہرگز نہ جائیں؛ بلکہ وہ خود بھی آئیں، تو ملاقات کم رکھیں۔
اس لیے کہ ان کے ساتھ میل جول، ان کی خوشنودی اور رضاجوئی میں تکلّف برتنے سے خالی نہ ہوگا۔
وہ لوگ اکثر ظالم اور ناجائز امور کا ارتکاب کرنے والے ہوتے ہیں، جس پر انکار کرنا ضروری ہے۔ ان کے ظلم کا اظہار، ان کے ناجائز فعل پر تنبیہ کرنا ضروری ہے اور اس پر سکوت دین میں مداہنت ہے اور اگر ان کی خوشنودی کے لیے ان کی تعریف کرنا پڑے، تو یہ صریح جھوٹ ہے اور ان کے مال کی طرف اگر طبیعت کو میلان ہوا اور طمع ہوئی، تو ناجائز ہے۔ بہر حال ان کا اختلاط بہت سے مفاسد کی کنجی ہے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص جنگل میں رہتا ہے، وہ سخت مزاج ہو جاتا ہے اور جو شکار کے پیچھے لگ جاتا ہے، وہ (سب چیز سے) غافل ہو جاتا ہے اور جو بادشاہ کے پاس آمد ورفت شروع کر دے، وہ فتنہ میں پڑ جاتا ہے۔
حضرت حذیفہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اپنے آپ کو فتنوں کی جگہ کھڑے ہونے سے بچاؤ۔ کسی نے پوچھا کہ فتنوں کی جگہ کونسی ہوتی ہے؟ فرمایا: امرا کے دروازے کہ ان کے پاس جا کر ان کی غلط کاریوں کی تصدیق کرنی پڑتی ہے اور (ان کی تعریف میں) ایسی باتیں کہنی پڑتی ہیں، جو ان میں نہیں ہیں۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بدترین علما وہ ہیں، جو حکام کے یہاں حاضری دیں اور بہترین حاکم وہ ہیں، جو علما کے یہاں حاضر ہوں۔
حضرت سمنون (جو حضرت سری سَقطی رحمہ الله کے اصحاب میں ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے یہ سنا تھا کہ جب تم کسی عالم کو یہ سنو کہ وہ دنیا کی محبت رکھتا ہے، تو اس شخص کو اپنے دین کے بارے میں متّہم سمجھو۔ میں نے اس کا خود تجربہ کیا۔ جب بھی میں بادشاہ کے یہاں گیا، تو واپسی پر میں نے اپنے دل کو ٹٹولا، تو اس پر میں نے ایک وبال پایا؛ حالانکہ تم دیکھتے ہو کہ میں وہاں سخت گفتگو کرتا ہوں اور ان کی رائے کا سختی سے خلاف کرتا ہوں، وہاں کی کسی چیز سے منتفع نہیں ہوتا؛ حتّی کہ وہاں کا پانی بھی نہیں پیتا۔
ہمارے علما بنو اسرائیل کے علما سے بھی برے ہیں کہ وہ حکام کے پاس جا کر ان کو گنجایشیں بتاتے ہیں، ان کی خوشنودی کی فکر کرتے ہیں۔ اگر وہ ان سے ان کی ذمہ داریاں صاف صاف بتائیں، تو وہ لوگ ان کا جانا بھی گراں سمجھنے لگیں اور یہ صاف صاف کہنا ان علما کے لیے حق تعالیٰ شانہ کے یہاں نجات کا سبب بن جائے۔
علما کا سلاطین کے یہاں جانا ایک بہت بڑا فتنہ ہے اور شیطان کے اغوا کرنے کا ذریعہ ہے۔ بالخصوص جس کو بولنا اچھا آتا ہو، اس کو شیطان یہ سمجھاتا ہے کہ تیرے جانے سے ان کی اصلاح ہوگی اور وہ اس کی وجہ سے ظلم سے بچیں گے اور دین کے شعائر کی حفاظت ہوگی؛ حتی کہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ان کے پاس جانا بھی کوئی دینی چیز ہے؛ حالانکہ ان کے پاس جانے سے ان کی دل داری مداہنت کی باتیں کرنا اور ان کی بے جا تعریفیں کرنا پڑتی ہیں، جس میں دین کی ہلاکت ہے۔ (فضائلِ صدقات، ص ۴۸۹-۴۹۱)
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کو لکھا کہ مجھے ایسے مناسب لوگوں کا پتہ بتاؤ، جن سے میں اپنی اس (خلافت کے) کام میں مدد لوں!
حضرت حسن اللہ نے (جواب میں) لکھا کہ اہلِ دین تو تم تک نہ آئیں گے اور دنیا داروں کو تم اختیار نہ کرو گے (اور نہ کرنا چاہیئے یعنی حریص طمّاع لوگوں کو کہ وہ اپنے لالچ میں کام خراب کر دیں گے)، اس لیے شریف النسب لوگوں سے کام لو۔
اس لیے کہ ان کی قومی شرافت ان کو اس بات سے روکےگی کہ وہ اپنی نسبی شرافت کو خیانت سے گندہ کریں۔
یہ جواب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو لکھا، جن کا زہد وتقویٰ، عدل وانصاف ضرب المثل ہے؛ حتی کہ وہ عمرِ ثانی کہلاتے ہیں۔
یہ امام غزالی رحمہ اللہ کا ارشاد ہے؛ لیکن اس ناکارہ کے خیال میں اگر کوئی دینی مجبوری ہو، تو اپنے نفس کی حفاظت اور نگرانی کرتے ہوئے جانے میں مضائقہ نہیں؛ بلکہ بسا اوقات دینی مصالح اور ضرورتوں کا تقاضا جانا ہی ہوتا ہے؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ اپنی ذاتی غرض، ذاتی نفع، مال وجاہ کمانا مقصود نہ ہو؛ بلکہ صرف مسلمانوں کی ضرورت ہو۔
حق تعالیٰ شانہ نے فرمایا:
وَاللہُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ (البقرة: ع ٢٧)
اور اللہ تعالیٰ مصلحت کے ضائع کرنے والے کو اور مصلحت کی رعایت رکھنے والے کو (الگ الگ) جانتے ہیں۔ (فضائلِ صدقات، ص ۴۹۱)