حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی نصیحت
وہب بن منبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ظاہری بینائی جانے کے بعد میں ان کو لے جا رہا تھا۔ وہ مسجدِ حرام میں تشریف لے گئے۔
وہاں پہنچ کر ایک مجمع سے کچھ جھگڑے کی آواز آ رہی تھی، فرمایا: مجھے اس مجمع کی طرف لے چلو۔ میں اس طرف لے گیا۔
وہاں پہنچ کر آپ نے سلام کیا۔ ان لوگوں نے بیٹھنے کی درخواست کی، تو آپ نے انکار فرما دیا اور فرمایا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ کے خاص بندوں کی جماعت وہ لوگ ہیں، جن کو اس کے خوف نے چپ کرا رکھا ہے؟ حالانکہ نہ وہ عاجز ہیں، نہ گونگے؛ بلکہ فصیح لوگ ہیں، بولنے والے ہیں، سمجھ دار ہیں؛ مگر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے ذکر نے اُن کی عقلوں کو اڑا رکھا ہے۔ اُن کے دل اس کی وجہ سے ٹوٹے رہتے ہیں اور زبانیں چُپ رہتی ہیں اور جب اس حالت پر ان کو پختگی میسر ہو جاتی ہے، تو اُس کی وجہ سے نیک کاموں میں وہ جلدی کرتے ہیں۔ تم لوگ ان سے کہاں ہٹ گئے؟
وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے دو آدمیوں کو بھی ایک جگہ جمع نہیں دیکھا۔
ف: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اللہ کے خوف سے اس قدر روتے تھے کہ چہرہ پر آنسوؤں کے ہر وقت بہنے سے دو نالیاں سی بن گئیں تھیں۔
اوپر کے قصہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نیک کاموں پر اہتمام کا یہ ایک سہل نسخہ بتلایا کہ اللہ کی عظمت اور اس کی بڑائی کا سوچ کیا جائے کہ اس کے بعد ہر قسم کا نیک عمل سہل ہے اور پھر وہ یقینا اخلاص سے بھرا ہوا ہوگا۔
رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں اگر تھوڑا سا وقت بھی ہم لوگ اس سوچنے کی خاطر نکال لیں، تو کیا مشکل ہے؟ (فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص ۳۷-۳۸)