مسلمانوں کی حبشہ کی ہجرت اور شعبِ ابی طالب میں قید ہونا
مسلمانوں کو اور ان کے سردار فخرِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کفار سے تکالیف پہنچتی ہی رہیں اور آئے دن ان میں بَجائے کمی کے اضافہ ہی ہوتا رہا، تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی اجازت فرما دی کہ وہ یہاں سے کسی دوسری جگہ چلے جائیں، تو بہت سے حضرات نے حبشہ کی ہجرت فرمائی۔
حبشہ کے بادشاہ اگرچہ نصرانی تھے اور اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے؛ مگر ان کے رحم دل اور منصف مزاج ہونے کی شہرت تھی۔
چنانچہ نبوت کے پانچویں برس رجب کے مہینہ میں پہلی جماعت کے گیارہ یا بارہ مرد اور چار یا پانچ عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ مکہ والوں نے ان کا پیچھا بھی کیا کہ یہ نہ جا سکیں؛ مگر یہ لوگ ہاتھ نہ آئے۔
وہاں پہنچ کر ان کو یہ خبر ملی کہ مکہ والے سب مسلمان ہو گئے اور اسلام کو غلبہ ہو گیا۔ اس خبر سے یہ حضرات بہت خوش ہوئے اور اپنے وطن واپس آ گئے؛ لیکن مکہ مکرمہ کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی اور مکہ والے اسی طرح؛ بلکہ اس سے بھی زیادہ دشمنی اور تکلیفیں پہنچانے میں مصروف ہیں، تو بڑی دقّت ہوئی۔ ان میں سے بعض حضرات وہیں سے واپس ہو گئے اور بعض کسی کی پناہ لے کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ یہ حبشہ کی پہلی ہجرت کہلاتی ہے۔
اس کے بعد ایک بڑی جماعت نے جو تراسی (۸۳) مرد اور اٹھارہ (۱۸) عورتیں بتلائی جاتی ہیں، متفرق طور پر ہجرت کی اور یہ حبشہ کی دوسری ہجرت کہلاتی ہے۔
بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے دونوں ہجرتیں کیں اور بعض نے ایک۔
کفار نے جب یہ دیکھا کہ یہ لوگ حبشہ میں چین کی زندگی بسر کرنے لگے، تو ان کو اور بھی غصہ آیا اور بہت سے تحفے، تحائف لے کر نجاشی شاہِ حبشہ کے پاس ایک وفد بھیجا، جو بادشاہ کے لیے بھی بہت سے تحفے لے کر گیا اور اس کے خواص اور پادریوں کے لیے بھی بہت سے ہدیے لے کر گیا۔
جا کر اول پادریوں اور حُکّام سے ملا اور ہدیے دے کر ان سے بادشاہ کے یہاں اپنی سفارش کا وعدہ لیا اور پھر بادشاہ کی خدمت میں یہ وفد حاضر ہوا۔ اول بادشاہ کو سجدہ کیا اور پھر تحفے پیش کر کے اپنی درخواست پیش کی اور رشوت خور حکّام نے تائید کی۔
انہوں نے کہا کہ اے بادشاہ! ہماری قوم کے چند بے وقوف لڑکے اپنے قدیمی دین کو چھوڑ کر ایک نئے دین میں داخل ہو گئے، جس کو نہ ہم جانتے ہیں، نہ آپ جانتے ہیں اور آپ کے ملک میں آ کر رہنے لگے۔ ہم کو شرفائے مکہ نے اور ان لوگوں کے باپ، چچا اور رشتہ داروں نے بھیجا ہے کہ ان کو واپس لائیں۔ آپ ان کو ہمارے سپرد کر دیں۔
بادشاہ نے کہا کہ جن لوگوں نے میری پناہ پکڑی ہے، بغیر تحقیق ان کو حوالہ نہیں کر سکتا۔ اول ان سے بلا کر تحقیق کر لوں۔ اگر صحیح ہو، تو حوالہ کر دوں گا۔
چنانچہ مسلمانوں کو بلایا گیا۔ مسلمان اول بہت پریشان ہوئے، کیا کریں؟ مگر اللہ کے فضل نے مدد کی اور ہمت سے یہ طے کیا کہ چلنا چاہیئے اور صاف بات کہنا چاہیئے۔
بادشاہ کے یہاں پہنچ کر سلام کیا۔ کسی نے اعتراض کیا کہ تم نے بادشاہ کو آدابِ شاہی کے موافق سجدہ نہیں کیا۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔
اس کے بعد بادشاہ نے اُن سے حالات دریافت کیے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور فرمایا کہ ہم لوگ جہالت میں پڑے ہوئے تھے۔ نہ اللہ کو جانتے تھے، نہ اس کے رسولوں سے واقف تھے۔ پتھروں کو پوجتے تھے۔ مردار کھاتے تھے۔ بُرے کام کرتے تھے۔ رشتہ ناتوں کو توڑتے تھے۔ ہم میں کا قوی ضعیف کو ہلاک کر دیتا تھا۔ ہم اس حال میں تھے کہ اللہ نے اپنا ایک رسول بھیجا، جس کے نسب کو، اس کی سچائی کو، اس کی امانت داری کو، پرہیز گاری کو ہم خوب جانتے ہیں۔ اس نے ہم کو ایک اللہ وحدہ لا شریک لہٗ کی عبادت کی طرف بلایا اور پتھروں اور بتوں کے پوجنے سے منع فرمایا۔ اس نے ہم کو سچ بولنے کا حکم دیا۔ امانت داری کا حکم کیا۔ صلہ رحمی کا حکم کیا۔ پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا۔ نماز، روزہ، صدقہ خیرات کا حکم دیا اور اچھے اخلاق تعلیم کیے۔ زنا، بدرکاری، جھوٹ بولنا، یتیم کا مال کھانا، کسی پر تہمت لگانا اور اس قسم کے بُرے اعمال سے منع فرمایا۔ ہم کو قرآن پاک کی تعلیم دی۔ ہم اس پر ایمان لائے اور اس کے فرمان کی تعمیل کی، جس پر ہماری قوم ہماری دشمن ہو گئی اور ہم کو ہر طرح ستایا۔ ہم لوگ مجبور ہو کر تمہاری پناہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے آئے ہیں۔
بادشاہ نے کہا: اچھا، جو قرآن تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں، وہ کچھ مجھے سناؤ۔
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے سورۂ مریم کی اوّل کی آیتیں پڑھیں، جس کو سن کر بادشاہ بھی رو دیا اور اس کے پادری بھی، جو کثرت سے موجود تھے، سب کے سب اس قدر روئے کہ داڑھیاں تَر ہو گئیں۔
اس کے بعد بادشاہ نے کہا کہ خدا کی قسم! یہ کلام اور جو کلام حضرت موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے، ایک ہی نور سے نکلے ہیں اور ان لوگوں سے صاف انکار کر دیا کہ میں ان کو تمہارے حوالہ نہیں کر سکتا۔
وہ لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ بڑی ذلت اٹھانی پڑی۔ آپس میں صلاح کر کے ایک شخص نے کہا کہ کل کو میں ایسی تدبیر کروں گا کہ بادشاہ ان کی جڑ ہی کاٹ دے۔ ساتھیوں نے کہا بھی کہ ایسا نہیں چاہیئے۔ یہ لوگ اگرچہ مسلمان ہو گئے؛ مگر پھر بھی رشتہ دار ہیں؛ مگر اس نے نہ مانا۔
دوسرے دن پھر بادشاہ کے پاس گئے اور جا کر کہا کہ یہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، اُن کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔ بادشاہ نے پھر مسلمانوں کو بلایا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ دوسرے دن کے بلانے سے ہمیں اور بھی زیادہ پریشانی ہوئی۔ بہر حال گئے۔
بادشاہ نے پوچھا کہ تم حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہو؟
انہوں نے کہا: وہی کہتے ہیں، جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی شان میں نازل ہوا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں۔ اس کے رسول ہیں۔ اس کی روح ہیں اور اس کے کلمہ ہیں، جس کو خدا نے کنواری اور پاک مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا۔
نجاشی نے کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی اس کے سوا کچھ نہیں فرماتے۔
پادری لوگ آپس میں کچھ چخ چخ کرنے لگے، نجاشی نے کہا: تم جو چاہے، کہو۔
اس کے بعد نجاشی نے اُن کے تحفے واپس کر دیئے اور مسلمانوں سے کہا: تم امن سے رہو۔ جو تمہیں ستائے، اس کو تاوان دینا پڑےگا اور اس کا اعلان بھی کرا دیا کہ جو شخص ان کو ستائےگا، اس کو تاوان دینا ہوگا۔
اس کی وجہ سے وہاں کے مسلمانوں کا اکرام اور بھی زیادہ ہونے لگا اور اس وفد کو ذِلّت سے واپس آنا پڑا۔(فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص ۲۰-۲۲)
تو پھر کفارِ مکہ کا جتنا بھی غصہ جوش کرتا ظاہر ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے نے ان کو اور بھی جَلا رکھا تھا اور ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ لوگوں کا اُن سے مِلنا جُلنا بند ہو جائے اور اسلام کا چراغ کسی طرح بُجھے۔
اس لیے سردارانِ مکہ کی ایک بڑی جماعت نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کھلّم کھلّا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیا جائے؛ لیکن قتل کر دینا بھی آسان کام نہیں تھا، اس لیے کہ بنو ہاشم بھی بڑے جَتھے اور اونچے طبقہ کے لوگ شمار ہوتے تھے۔ وہ اگرچہ اکثر مسلمان نہیں ہوئے تھے؛ لیکن جو مسلمان نہیں تھے، وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل ہو جانے پر آمادہ نہیں تھے۔
اس لیے ان سب کفار نے مل کر ایک معاہدہ کیا کہ سارے بنو ہاشم اور بنو المطلب کا بائیکاٹ کیا جائے۔ نہ ان کو کوئی شخص اپنے پاس بیٹھنے دے، نہ اُن سے کوئی خرید وفروخت کرے، نہ بات چیت کرے، نہ ان کے گھر جائے، نہ اُن کو اپنے گھر میں آنے دے اور اس وقت تک صلح نہ کی جائے، جب تک کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کے لیے حوالہ نہ کر دیں۔
یہ معاہدہ زبانی ہی گفتگو پر ختم نہیں ہوا؛ بلکہ یکم محرم سن ۷ نبوی کو ایک معاہدہ تحریری لکھ کر بیت اللہ میں لٹکایا گیا؛ تاکہ ہر شخص اس کا احترام کرے اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔
اور اس معاہدہ کی وجہ سے تین برس تک یہ سب حضرات دو پہاڑوں کے درمیان ایک گھاٹی میں نظر بند رہے کہ نہ کوئی ان سے مل سکتا تھا، نہ یہ کسی سے مل سکتے تھے، نہ مکہ کے کسی آدمی سے کوئی چیز خرید سکتے تھے، نہ ہاہر کے آنے والے کسی تاجر سے مل سکتے تھے۔
اگر کوئی شخص باہر نکلتا، تو پِیٹا جاتا اور کسی سے ضرورت کا اظہار کرتا، تو صاف جواب پاتا۔
معمولی سا سامان غلّہ وغیرہ، جو اُن لوگوں کے پاس تھا، وہ کہاں تک کام دیتا۔ آخر فاقوں پر فاقے گذرنے لگے اور عورتیں اور بچے بھوک سے بیتاب ہو کر روتے اور چلّاتے اور ان کے اَعِزہ کو اپنی بھوک اور تکالیف سے زیادہ ان بچوں کی تکالیف ستائیں۔
آخر تین برس کے بعد اللہ کے فضل سے وه صحیفہ دیمک کی نذر ہوا اور ان حضرات کی یہ مصیبت دور ہوئی۔
تین برس کا زمانہ ایسے سخت بائیکاٹ اور نظر بندی میں گزرا اور ایسی حالت میں ان حضرات پر کیا کیا مشقتیں گزری ہوں گی، وہ ظاہر ہے؛ لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نہایت ثابت قدمی کے ساتھ اپنے دین پر جمے رہے؛ بلکہ اس کی اشاعت فرماتے رہے۔
ف: یہ تکالیف اور مشقتیں ان لوگوں نے اُٹھائی ہیں، جن کے آج ہم نام لیوا کہلاتے ہیں اور اپنے کو ان کا متَّبِع بتلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں: ہم لوگ ترقی کے باب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسی ترقیوں کے خواب دیکھتے ہیں؛ لیکن کسی وقت ذرا غور کر کے بھی سوچنا چاہیئے کہ ان حضرات نے قربانیاں کتنی فرمائیں اور ہم نے دین کی خاطر، اسلام کی خاطر، مذہب کی خاطر کیا کیا؟
کامیابی ہمیشہ کوشش اور سعی کے مناسب ہوتی ہے۔ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ عیش وآرام، بد دینی اور دنیا طلبی میں کافروں کے دوش بدوش چلیں اور اسلامی ترقی ہمارے ساتھ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ترسم نرسی بکعبہ اے اعرابی کیں رہ کہ تو میروی بترکستان است
(ترجمہ:) مجھے خوف ہے او بدوی! کہ تو کعبہ کو نہیں پہنچ سکتا، اس لیے کہ یہ راستہ کعبہ کی دوسری جانب تُرکستان کی طرف جاتا ہے۔ (فضائلِ اعمال، حکایاتِ صحابہ، ص ۲۰-۲۳)