فضائلِ صدقات – ۹

علمائے آخرت کی بارہ علامات

چوتھی علامت:

چوتھی علامت آخرت کے علماء کی یہ ہے کہ کھانے، پینے کی اور لباس کی عمدگیوں اور بہترائیوں کی طرف متوجہ نہ ہو؛ بلکہ ان چیزوں میں درمیانی رفتار اختیار کرے اور بزرگوں کے طرز کو اختیار کرے۔ ان چیزوں میں جتنا کمی کی طرف اس کا میلان بڑھےگا، اللہ تعالیٰ شانہ سے اُتنا ہی اس کا قرب بڑھتا جائےگا اور علمائے آخرت میں اُتنا ہی اس کا درجہ بلند ہوتا جائےگا۔

انہیں شیخ حاتم رحمہ اللہ کا ایک عجیب قصہ، جس کو شیخ ابو عبد الله خواص رحمہ اللہ، جو شیخ حاتم رحمہ اللہ کے شاگردوں میں ہیں، نقل کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت شیخ حاتم رحمہ اللہ کے ساتھ مَوضعِ رَیْ میں، جو ایک جگہ کا نام ہے، گیا۔ تین سو بیس (۳۲۰) آدمی ہمارے ساتھ تھے۔ ہم حج کے ارادہ سے جا رہے تھے۔ سب متوکّلین کی جماعت تھی۔ ان لوگوں کے پاس توشہ، سامان وغیرہ کچھ نہ تھا۔

رَیْ میں ایک معمولی خشک مزاج تاجر پر ہمارا گزر ہوا۔ اس نے سارے قافلہ کی دعوت کر دی اور ہماری ایک رات کی مہمانی کی۔ دوسرے دن صبح کو وہ میزبان حضرت حاتم رحمہ اللہ سے کہنے لگا کہ یہاں ایک عالم بیمار ہیں۔ مجھے ان کی عیادت کو اِس وقت جانا ہے۔ اگر آپ کی رغبت ہو، تو آپ بھی چلیں۔ حضرت حاتم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بیمار کی عیادت تو ثواب ہے اور عالم کی تو زیارت بھی عبادت ہے۔ میں ضرور تمہارے ساتھ چلوں گا۔

یہ بیمار عالم اس موضع کے قاضی، شیخ محمد بن مقاتل رحمہ اللہ تھے۔ جب ان کے مکان پر پہنچے، تو حضرت حاتم رحمہ اللہ سوچ میں پڑ گئے کہ اللہ اکبر! ایک عالم کا مکان اور ایسا اونچا محل۔ غرض ہم نے حاضری کی اجازت منگائی اور جب اندر داخل ہوئے، تو وہ اندر سے بھی نہایت خوشنما، نہایت وسیع، پاکیزہ، جگہ جگہ پردے لٹک رہے۔ حضرت حاتم رحمہ اللہ ان سب چیزوں کو دیکھ رہے تھے اور سوچ میں پڑے ہوئے تھے۔

اتنے میں ہم قاضی صاحب کے قریب پہنچے، تو وہ ایک نہایت نرم بسترے پر آرام کر رہے تھے۔ ایک غلام ان کے سرہانے پنکھا جھل رہے تھے۔ وہ تاجر تو سلام کر کے ان کے پاس بیٹھ گئے اور مزاج پرسی کی۔ حاتم رحمہ اللہ کھڑے رہے۔ قاضی صاحب نے ان کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے بیٹھنے سے انکار کر دیا۔

قاضی صاحب نے پوچھا آپ کو کچھ کہنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے۔ قاضی صاحب نے فرمایا: کہو۔ انہوں نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں (غلاموں نے قاضی صاحب کو سہارا دے کر اٹھایا کہ خود اٹھنا مشکل تھا)، وہ بیٹھ گئے۔

حضرت حاتم رحمہ اللہ نے پوچھا کہ آپ نے علم کس سے حاصل کیا؟ انہوں نے فرمایا: معتبر علماء سے۔ انہوں نے پوچھا کہ ان علماء نے کس سے سیکھا تھا؟ قاضی صاحب نے فرمایا کہ انہوں نے حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے۔ حضرت حاتم رحمہ اللہ نے پوچھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کس سے سیکھا تھا؟ قاضی صاحب: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ حضرت حاتم رحمہ اللہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کس سے سیکھا تھا؟ قاضی صاحب: حضرت جبرئیل علیہ السلام سے۔ حضرت حاتم رحمہ اللہ: حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کس سے سیکھا تھا؟ قاضی صاحب: اللہ تعالیٰ شانہ سے۔

حضرت حاتم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو علم حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حق تعالی شانہ سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو عطا فرمایا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے معتبر علماء کو اور ان کے ذریعہ سے آپ تک پہنچا۔ اس میں کہیں یہ بھی وارد ہے کہ جس شخص کا جس قدر مکان اونچا اور بڑا ہوگا، اس کا اُتنا ہی درجہ اللہ جل شانہ کے یہاں بھی زیادہ ہوگا؟

قاضی صاحب نے فرمایا کہ نہیں، یہ اس علم میں نہیں آیا۔

حضرت حاتم رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر یہ نہیں آیا، تو پھر اس علم میں کیا آیا ہے؟

قاضی صاحب نے فرمایا کہ اس میں یہ آیا ہے کہ جو شخص دنیا سے بے رغبت ہو، آخرت میں رغبت رکھتا ہو، فقراء کو محبوب رکھتا ہو، اپنی آخرت کے لیے اللہ کے یہاں ذخیرہ بھیجتا رہتا ہو، وہ شخص حق تعالیٰ شانہ کے یہاں صاحبِ مرتبہ ہے۔

حضرت حاتم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ پھر آپ نے کس کا اتباع اور پیروی کی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی، متقی علماء کی یا فرعون اور نمرود کی؟ اے بُرے عالمو! تم جیسوں کو جاہل دنیا دار جو دنیا کے اوپر اوندھے گِرنے والے ہیں، دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ جب عالموں کا یہ حال ہے، تو ہم تو ان سے زیادہ برے ہوں گے ہی۔

یہ کہہ کر حضرت حاتم رحمہ اللہ تو واپس چلے گئے اور قاضی صاحب کے مرض میں اس گفتگو اور نصیحت کی وجہ سے اور بھی زیادہ اضافہ ہو گیا۔

لوگوں میں اس کا چرچا ہوا، تو کسی نے حضرت حاتم رحمہ اللہ سے کہا کہ طَنافسی جو قَزْوِیْنْ میں رہتے ہیں (قزوین رَیْ سے ستائیس (۲۷) فرسخ یعنی اکیاسی (۸۱) میل ہے) وہ ان سے بھی زیادہ رئیسانہ شان سے رہتے ہیں۔ (فضائلِ صدقات، ص ۳۵۷-۳۵۸)

حضرت حاتم رحمہ اللہ (ان کو نصیحت کرنے کے ارادہ سے چل دیئے) جب ان کے پاس پہنچے، تو کہا کہ ایک عجمی آدمی ہے (جو عرب کا رہنے والا نہیں ہے) آپ سے یہ چاہتا ہے کہ آپ اس کو دین کی بالکل ابتدا سے یعنی نماز کی کنجی، وضو سے تعلیم دیں۔

طنافسی رحمہ اللہ نے کہا: بڑے شوق سے۔ یہ کہہ کر طنافسی رحمہ اللہ نے وضو کا پانی منگایا اور طنافسی رحمہ اللہ نے وضو کر کے بتایا کہ اس طرح وضو کی جاتی ہے۔

حضرت حاتم رحمہ اللہ نے ان کی وضو کے بعد کہا کہ میں آپ کے سامنے وضو کر لوں؛ تاکہ اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے؟

طنافسی رحمہ اللہ وضو کی جگہ سے اُٹھ گئے اور حضرت حاتم رحمہ اللہ نے بیٹھ کر وضو کرنا شروع کیا اور دونوں ہاتھوں کو چار چار مرتبہ دھویا۔

طنافسی رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ اسراف ہے۔ تین تین مرتبہ دھونا چاہیئے۔

حضرت حاتم رحمہ اللہ نے کہا: سبحان اللہ العظیم! میرے ایک چُلّو پانی میں تو اسراف ہو گیا اور یہ سب کچھ جو ساز وسامان میں تمہارے پاس دیکھ رہا ہوں، اس میں اسراف نہ ہوا؟

جب طنافسی رحمہ اللہ کو خیال ہوا کہ ان کا مقصد سیکھنا نہیں تھا؛ بلکہ یہ غرض تھی۔ اُس کے بعد جب بغداد پہنچے اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو ان کے احوال کا علم ہوا، تو وہ ان سے ملنے کے لیے تشریف لائے اور ان سے دریافت فرمایا کہ دنیا سے سلامتی کی کیا تدبیر ہے؟

حاتم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دنیا سے اس وقت تک محفوظ نہیں رہ سکتے، جب تک تم میں چار چیزیں نہ ہوں:

(۱) لوگوں کی جہالت سے در گذر کرتے رہو۔

(۲) خود ان کے ساتھ کوئی حرکت جہالت کی نہ کرو۔

(۳) تمہارے پاس جو چیز ہو، ان پر خرچ کر دو۔

(۴) ان کے پاس جو چیز ہو، اس کی امید نہ رکھو۔

اُس کے بعد جب حضرت حاتم رحمہ اللہ مدینہ منورہ پہنچے، تو وہاں کے لوگ خبر سن کر ان کے پاس ملنے کے لیے جمع ہو گئے۔

انہوں نے دریافت فرمایا کہ یہ کونسا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے۔

کہنے لگے کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا محل کونسا تھا، میں بھی وہاں جا کر دوگانہ ادا کروں؟ لوگوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تو محل نہیں تھا۔ بہت مختصر مکان تھا، جو بہت نیچا تھا۔

کہنے لگے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے محل کہاں کہاں ہیں، مجھے وہی دکھا دو؟ لوگوں نے کہا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بھی محل نہیں تھے۔ ان کے بھی چھوٹے چھوٹے مکانات زمین سے لگے ہوئے تھے۔

حاتم رحمہ اللہ نے کہا: پھر یہ تو شہر فرعون کا شہر ہے۔

لوگوں نے ان کو پکڑ لیا (کہ یہ شخص مدینہ منورہ کی توہین کرتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کو فرعون کا شہر بتاتا ہے) اور پکڑ کر امیرِ مدینہ کے پاس لے گئے کہ یہ عجمی شخص مدینہ طیبہ کو فرعون کا شہر بتاتا ہے۔

امیر نے ان سے مطالبہ کیا کہ یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: آپ جلدی نہ کریں۔ پوری بات سن لیں۔ میں ایک عجمی آدمی ہوں۔ میں جب اس شہر میں داخل ہوا، تو میں نے پوچھا کہ کس کا شہر ہے؟

پھر پورا قصہ اپنے سوال وجواب کا سُنا کر کہا کہ اللہ تعالٰی نے تو قرآن شریف میں یہ فرمایا ہے:

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ‎﴿٢١﴾

تم لوگوں کے واسطے یعنی ایسے شخص کے لیے جو اللہ سے اور آخرت کے دن سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکرِ الہی کرتا ہو (یعنی کامل مؤمن ہو۔ غرض ایسے شخص کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمدہ نمونہ موجود ہے (یعنی ہر بات میں یہ دیکھنا چاہیئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا معمول تھا اور اس کا اتباع کرنا چاہیئے)۔

پس اب تم ہی بتاؤ کہ تم نے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کر رکھا ہے یا فرعون کا؟

اس پر لوگوں نے ان کو چھوڑ دیا۔

یہاں ایک بات یہ قابلِ لحاظ ہے کہ مباح چیزوں کے ساتھ لذت حاصل کرنا یا ان کی وسعت حرام یا نا جائز نہیں ہے؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ ان کی کثرت سے ان چیزوں کے ساتھ اُنس پیدا ہوتا ہے، ان چیزوں کی محبت دل میں ہو جاتی ہے اور پھر اس کا چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے اور ان کے فراہم کرنے کے لیے اسباب تلاش کرنا پڑتے ہیں۔

پیداوار اور آمدنی کے بڑھانے کی فکر ہوتی ہے اور جو شخص روپیہ بڑھانے کی فکر میں لگ جاتا ہے، اُس کو دین کے بارے میں مُداہنت بھی کرنی پڑتی ہے۔ اس میں بسا اوقات گناہوں کے مرتکب ہونے کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔

اگر دنیا میں گُھسنے کے بعد اس سے محفوظ رہنا آسان ہوتا، تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اتنے اہتمام سے دنیا سے بے رغبتی پر تنبیہ نہ فرماتے اور اتنی شدت سے اُس سے خود نہ بچتے کہ نقشین کُرتا بھی بدن مبارک پر سے اتار دیا۔ (فضائلِ صدقات، ص ۳۵۸-۳۵۹)

یحیی بن یزید نوفلی رحمہ اللہ نے حضرت امام مالک رحمہ اللہ کو ایک خط لکھا، جس میں حمد وصلوٰۃ کے بعد لکھا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ باریک کپڑا پہنتے ہیں اور پتلی روٹی استعمال کرتے ہیں اور نرم بستر پر آرام کرتے ہیں۔ دربان بھی آپ نے مقرر کر رکھا ہے؛حالانکہ آپ اونچے علماء میں ہیں۔ دور، دور سے لوگ سفر کر کے آپ کے پاس علم سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ آپ امام ہیں۔ مقتدا ہیں۔ لوگ آپ کا اتباع کرتے ہیں۔ آپ کو بہت احتیاط کرنی چاہیئے۔ محض مخلصانہ یہ خط لکھ رہا ہوں۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو اس خط کی خبر نہیں۔ فقط والسلام

حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے اس کا جواب تحریر فرمایا کہ تمہارا خط پہنچا، جو میرے لیے نصیحت نامہ، شفقت نامہ اور تنبیہ تھی۔

حق تعالی شانہ تقوی کے ساتھ تمہیں منتفع فرمائے اور اس نصیحت کی جزائے خیر عطا فرمائے اور مجھے حق تعالٰی شانہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ خوبیوں پر عمل اور برائیوں سے بچنا اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے ہو سکتا ہے۔

جو امور تم نے ذکر کیے، یہ صحیح ہیں۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے؛ (لیکن یہ سب چیزیں جائز ہیں) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ

آپ یہ کہدیجیئے کہ (یہ بتلاؤ) کہ اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئی زینت (کپڑوں وغیرہ) کو، جن کو اُس نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کیا اور کھانے، پینے کی حلال چیزوں کو کس نے حرام کیا ہے؟

اس کے بعد تحریر فرمایا کہ یہ میں خوب جانتا ہوں کہ ان امور کا اختیار نہ کرنا اختیار کرنے سے اولی اور بہتر ہے۔ آئندہ بھی اپنے گرامی ناموں سے مجھے مشرف کرتے رہیں۔ میں بھی خط لکھتا رہوں گا۔ فقط والسلام

کتنی لطیف بات امام مالک رحمہ اللہ نے اختیار فرمائی کہ جواز کا فتوی بھی تحریر فرما دیا اور اس کا اقرار بھی فرما لیا کہ واقعی زیادہ بہتر ان امور کا ترک ہی تھا۔ (فضائلِ صدقات، ص ۳۵۹-۳۶۰)

Check Also

فضائلِ اعمال – ۲۰

صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہنسنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ اور …