قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿٢﴾ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿٣﴾ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿٤﴾ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿٥﴾
آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں سے) کہہ دیجیئے کہ میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی (۱) تمام مخلوقات کے شر سے (۲) اور اندھیری رات کے شر سے، جب وہ پھیل جائے (۳) گرہوں میں پھونک مارنے والیوں کے شر سے (۴) اور حسد کرنے والے کے شر سے، جب وہ حسد کرنے لگے (۵)
تفسیر
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾
آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں سے) کہہ دیجیئے کہ میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی (۱)
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر لفظِ “فلق” (صبح) کا ذکر کیا ہے، جس سے مراد طلوعِ فجر کا وقت ہے، جب تاریکی کے بعد روشنی نظر آتی ہے۔
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امت کے لیے پیغام ہے کہ جس طرح رات کی تاریکی کے بعد صبح کی روشنی آتی ہے، اسی طرح سختی اور پریشانی کے بعد آسانی اور اللہ تعالی کی مدد ضرور آتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی مدد آتی ہے، تو وہ تمام تاریکیوں کو دور کر دیتی ہے اور ہر طرف روشنی پھیلا دیتی ہے۔
لہٰذا پریشانیوں، مصیبتوں اور مشکلات کے وقت انسان کو چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور ان کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہ ہو۔
لفظِ “فلق” کا دوسرا معنی
بعض مفسرین بیان کرتے ہیں کہ لفظِ “فلق” سے مراد جہنم کی ایک وادی ہے، جو اس قدر خطرناک اور ہولناک ہے کہ خود جہنم روزانہ اس سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتی ہے۔ اس سے انسان بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان لوگوں کے عذاب کی شدت کیا ہوگی، جنہیں جہنم کی اس وادی میں ڈالا جائےگا۔
لہذا جب اللہ تعالیٰ نے جہنم کی اس وادی کا ذکر کیا اور یہ کہ اللہ تعالی اس وادی کے رب ہیں، تو اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ایسے مصائب وآلام اور تکلیفوں کے خالق ہیں، جن سے بدتر کوئی بھی مصیبت اور پریشانی نہیں ہے، تو انسان کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ اس کے لیے کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی ہی کے پاس تمام پریشانیوں کا حل، سارے سوالوں کے جوابات اور جملہ مشکلات سے نکلنے کا راستہ ہے۔
مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿٢﴾
(میں پناہ مانگتا ہوں) تمام مخلوقات کے شر سے (۲)
اس آیت کریمہ میں ہر اس پریشانی یا شر کا احاطہ کیا گیا ہے، جس کا تصور انسان کے بَس میں ہے یا اس کے بَس سے خارج ہے۔ ہر قسم کی پریشانی اور شر سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے۔
نیز اللہ تعالی نے اس آیت شریفہ میں ہماری توجہ اس بات کی طرف مبذول کرائی ہے کہ وہ خیر کے ساتھ ساتھ برائی اور شر کا بھی خالق ہے؛ چنانچہ جب وہ برائی اور شر کا خالق ہے، تو برائی اور شر کو دور کرنے کے لیے ہمیں اسی کی پناہ مانگنی چاہیئے؛ لہذا جب بھی ہم مخلوق کے شر سے پناہ مانگیں، تو ہمیں صبح کے رب کی پناہ مانگنی چاہیئے۔
مزید اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر اس بات کی تاکید فرمائی ہیں کہ جب ہر چیز اس کی پیدا کردہ ہے، تو پھر ہماری نظر میں مصیبت خواہ کتنی ہی معمولی یا کتنی ہی بڑی ہو، ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ سب اس کی مخلوق ہے اور اس پر اس کو مکمل اختیار اور قدرت حاصل ہے۔
لہذا انسان کے سامنے جیسے بھی مسائل اور حالات ہوں، اسے مغلوب نہیں ہونا چاہیئے؛ بلکہ اسے اس ہستی اور ذات کی طرف دیکھنا چاہیئے، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر چیز پر اس کو پوری قدرت حاصل ہے۔
مومن کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ وہ ذات جو اس پریشانی کو پیدا کرنے کی طاقت رکھتی ہے، وہ اسے ختم کرنے اور پورے طور پر مٹانے کی بھی طاقت رکھتی ہے۔ بسا اوقات انسان پر پریشانی اس قدر حاوی ہو جاتی ہے کہ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ہمارا ایک خالق ہے، جو ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿٣﴾ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿٤﴾ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿٥﴾
اور (میں پناہ مانگتا ہوں) اندھیری رات کے شر سے، جب وہ پھیل جائے (۳) گرہوں میں پھونک مارنے والیوں کے شر سے (۴) اور حسد کرنے والے کے شر سے، جب وہ حسد کرنے لگے (۵)
گذشتہ آیتِ کریمہ میں اللہ تعالی نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم ہر قسم کی پریشانی اور شر سے اس کی پناہ مانگیں اور اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ ہم ان تینوں مخصوص شر سے اس کی پناہ مانگیں۔
علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ ان تینوں برائیوں کو خاص طور پر ذکر کرنے کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں برائیاں اس واقعہ میں پائی گئیں تھیں، جو ان دونوں سورتوں کے نزول کا سبب تھا (یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا عمل کیا گیا)۔
ان تینوں برائیوں اور واقعہ سحر کے درمیان ربط
اندھیری رات کی برائی اور اس کے شر کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ جادو رات کو کیا گیا تھا۔
گرہوں پر پھونکنے والیوں کی برائی اور ان کے شر کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ لبید بن اعصم کی بیٹیاں بھی جادو کرنے والوں میں شامل تھیں، جنہوں نے جادو کرنے کے بعد گرہوں پر پھونکیں ماری تھیں۔
حسد کی برائی اور اس کے شر کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہودیوں کے جادو کرنے کی اصل وجہ وہ حسد تھا، جو ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پایا جاتا تھا اور وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقصد اور مشن (یعنی اسلام کی اشاعت) میں کامیاب ہوں۔
لہٰذا خصوصی طور پر ان تین قسم کی برائیوں اور شر سے اللہ کی پناہ طلب گئی ہے:
(۱) رات کے شر اور برائی سے، جب اس کی تاریکی پھیل جائے۔
(۲) ان عورتوں کی برائی اور شر سے، جو گرہوں پر پھونکتی ہیں۔
(۳) حسد کرنے والے کی برائی اور شر سے، جب وہ حسد کرے۔
درمیانی شر اور دوسرے شرور میں فرق
مذکورہ بالا آیات میں تین شرور سے پناہ طلب کی گئی ہے؛ مگر ان کے درمیان ایک فرق کیا گیا ہے کہ پہلے اور تیسرے شر کو ایک قید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
پہلے شر (رات کی برائی اور شر) کو إذا وقب (جب اس کی تاریکی پھیل جائے) کی قید کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور تیسرے شر (حسد کرنے والے کی برائی اور شر) کو إذا حسد (جب وہ حسد کرنے لگے) کی قید کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ جہاں تک دوسرے شر کا تعلق ہے، تو اس کو کسی قید کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ رات کی برائی اور شر اس کی تاریکی کے ساتھ محدود ہے، اس لیے کہ ظھورِ صبح کے بعد جب اندھیرا چھٹ جاتا ہے، تو رات کی برائی اور اس کا شر ختم ہو جاتا ہے۔
چوروں کے حملے اور مختلف مخلوقات اور جانوروں کی طرف سے نقصانات بھی عام طور پر رات کے وقت پائے جاتے ہیں؛ لہٰذا جب رات کی برائی اور شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی جاتی ہے، تو اس کے اندر تمام نقصانات اور برائیاں داخل ہوتی ہیں۔
اسی طرح حسد کرنے والے کی برائی اور شر اسی وقت سامنے آتی ہے، جب وہ اپنا حسد ظاہر کرتا ہے؛ ورنہ وہ اپنے حسد کی وجہ سے خود ہی جلتا رہتا ہے اور محسود پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا؛ لہٰذا حسد کرنے والے سے اُس وقت حفاظت اور پناہ طلب کی جاتی ہے، جب وہ اپنے حسد کا اظہار کرنا چاہتا ہے؛ کیوںکہ یہی وہ وقت ہے، جب وہ دوسروں کو تکلیف پہنچاتا ہے۔
جہاں تک جادو کی بات ہے، تو یہ رات اور دن میں کسی بھی وقت انسان پر اثر کر سکتا ہے، اس لیے اس برائی اور شر کے ساتھ کوئی قید بیان نہیں گئی ہے۔
شر کے دو بنیادی اسباب
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہیں کہ اگر تمام برائیوں اور شرور (خواہ وہ شر جسمانی ہوں یا روحانی ہوں) کے اسباب میں غور کیا جائے، تو وہ دو میں منحصر ہو سکتے ہیں:
(۱) جسمانی تکلیفیں وآفات (۲) روحانی تکلیفیں وآفات
جسمانی تکلیف کا سبب جسمانی ہوتا ہے اور روحانی تکلیف کا سبب روحانی ہوتا ہے۔
مثلاً کفر، شرک، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی وغیرہ روحانی تنزّل اور انحطاط کے اسباب ہیں۔
اس سورت کی آیت کریمہ: ”مِن شَرِّ مَا خَلَقَ” دونوں قسم کے اسباب کو شامل ہے اور یہ آیت کریمہ ہمیں یہ تعلیم بھی دے رہی ہے کہ ہم برائی اور شر کے دونوں اسباب سے اللہ تعالی کی پناہ مانگیں۔