حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر اللہ کا ڈر
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جو بَاِجماعِ اہل سنت انبیاء علیہم السلام کے علاوہ تمام دنیا کے آدمیوں سے افضل ہیں اور ان کا جنّتی ہونا یقینی ہے کہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنّتی ہونے کی بشارت دی؛ بلکہ جنّتیوں کی ایک جماعت کا سردار بتایا اور جنّت کے سب دروازوں سے ان کی پُکار اور بُلاوے کی خوش خبری دی اور یہ بھی فرمایا کہ میری امت میں سب سے پہلے ابو بکر رضی اللہ عنہ جنت میں داخل ہوں گے۔
اس سب کے باوجود فرمایا کرتے کہ کاش میں کوئی درخت ہوتا، جو کاٹ دیا جاتا۔ کبھی فرماتے: کاش میں کوئی گھاس ہوتا کہ جانور اس کو کھا لیتے۔ کبھی فرماتے: کاش میں کسی مومن کے بدن کا بال ہوتا۔
ایک مرتبہ ایک باغ میں تشریف لے گئے اور ایک جانور کو بیٹھا ہوا دیکھ کر ٹھنڈا سانس بھرا اور فرمایا کہ تُو کس قدر لطف میں ہے کہ کھاتا ہے، پیتا ہے، درختوں کے سائے میں پِھرتا ہے اور آخرت میں تجھ پر کوئی حساب کتاب نہیں، کاش ابو بکر بھی تجھ جیسا ہوتا۔
ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی بات پر مجھ میں اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میں کچھ بات بڑھ گئی اور انہوں نے مجھے کوئی سخت لفظ کہہ دیا، جو مجھے ناگوار گزرا۔ فوراً ان کو خیال ہوا۔ مجھ سے فرمایا کہ تُو بھی مجھے کہہ دے؛ تاکہ بدلہ ہو جائے۔
میں نے کہنے سے انکار کیا، تو انہوں نے فرمایا کہ یا تو کہہ لو؛ ورنہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر عرض کروں گا۔ میں نے اس پر بھی جوابی لفظ کہنے سے انکار کیا۔ وہ تو اٹھ کر چلے گئے۔
بنو اسلم کے کچھ لوگ آئے اور کہنے لگے کہ یہ بھی اچھی بات ہے کہ خود ہی تو زیادتی کی اور خود ہی اُلٹی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کریں۔
میں نے کہا: تم جانتے بھی ہو: یہ کون ہیں؟ یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ اگر یہ خفا ہو گئے، تو اللہ کا لاڈلا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خفا ہو جائےگا اور اس کی خفگی سے اللہ تعالیٰ شانہ ناراض ہو جائیں گے، تو ربیعہ کی ہلاکت میں کیا تردد ہے؟
اس کے بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور قصہ عرض کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، تجھے جواب میں اور بدلہ میں کہنا نہیں چاہیئے؛ البتہ اس کے بدلے میں یوں کہہ کہ اے ابو بکر! اللہ تمہیں معاف فرماویں۔
ف: یہ ہے اللہ کا خوف کہ ایک معمولی سے کلمہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بدلہ کا اس قدر فکر اور اہتمام ہوا کہ اوّل خود درخواست کی اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے اس کا ارادہ فرمایا کہ ربیعہ رضی اللہ عنہ بدلہ لے لیں۔
آج ہم سینکڑوں باتیں ایک دوسرے کو کہہ دیتے ہیں، اس کا خیال بھی نہیں ہوتا کہ اس کا آخرت میں بدلہ بھی لیا جائےگا یا حساب کتاب بھی ہوگا۔ (فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص ۲۶-۲۷)