دوسرا باب: اللہ جل جلالہ وعم نوالہ کا خوف وڈر
دین کے ساتھ اس جانفشانی کے باوجود جس کے قصے ابھی گزرے اور دین کے لیے اپنی جان، مال، آبرو سب کچھ فنا کر دینے کے بعد جس کا نمونہ ابھی آپ دیکھ چکے ہیں، الله جل شانہ کا خوف اور ڈر جس قدر ان حضرات میں پایا جاتا تھا، الله کرے کہ اس کا کچھ شمّہ ہم سے سیہ کاروں کو بھی نصیب ہو جائے۔
مثال کے طور پر اس کے بھی چند قصے لکھے جاتے ہیں:
آندھی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ
حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جب ابر، آندھی وغیرہ ہوتی تھی، تو حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انور پر اس کا اثر ظاہر ہوتا تھا اور چہرہ کا رنگ فق ہو جاتا تھا اور خوف کی وجہ سے کبھی اندر تشریف لے جاتے، کبھی باہر تشریف لاتے اور یہ دعا پڑھتے رہتے:
اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا فِيْهَا وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهْ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِيْهَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهْ
یا الله! اس ہَوا کی بھلائی چاہتا ہوں اور جو اس ہوا میں ہو، بارش وغیرہ اس کی بھلائی چاہتا ہوں اور جس غرض سے یہ بھیجی گئی، اس کی بھلائی چاہتا ہوں۔ یا الله! میں اس ہوا کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں اور جو چیز اس میں ہے اور جس غرض سے یہ بھیجی گئی، اس کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں۔
اور جب بارش شروع ہو جاتی، تو چہرہ پر انبساط شروع ہوتا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول الله! سب لوگ جب ابر دیکھتے ہیں، تو خوش ہوتے ہیں کہ بارش کے آثار معلوم ہوئے؛ مگر آپ پر ایک گرانی محسوس ہوتی ہے؟
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عائشہ! مجھے اس کا کیا اطمینان ہے کہ اس میں عذاب نہ ہو؟ قومِ عاد کو ہوا کے ساتھ ہی عذاب دیا گیا اور وہ ابر کو دیکھ کر خوش ہوئے تھے کہ اس ابر میں ہمارے لیے پانی برسایا جائےگا؛ حالانکہ اس میں عذاب تھا۔
الله جل شانہ کا ارشاد ہے:
فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٢٤﴾ تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَىٰ إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ ﴿٢٥﴾
اُن لوگوں نے (یعنی قومِ عاد نے) جب اس بادل کو اپنی وادیوں کے مقابل آتے دیکھا، تو کہنے لگے: یہ بادل تو ہم پر بارش برسانے والا ہے (ارشاد خداوندی ہوا کہ نہیں، برسنے والا نہیں)؛ بلکہ یہ وہی (عذاب ہے)، جس کی تم جلدی مچاتے تھے (اور نبی سے کہتے تھے کہ اگر تُو سچّا ہے، تو ہم پر عذاب لا) ایک آندھی ہے، جس میں دردناک عذاب ہے، جو ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے ہلاک کر دےگی؛ چنانچہ وہ لوگ اُس آندھی کی وجہ سے ایسے تباہ ہو گئے کہ بَجُز ان کے مکانات کے، کچھ نہ دکھلائی دیتا تھا اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔
ف: یہ الله کے خوف کا حال اسی پاک ذات کا ہے، جس کا سیّد الاوّلین والآخرین ہونا خود اسی کے ارشاد سے سب کو معلوم ہے۔
خود کلامِ پاک میں یہ ارشاد ہے کہ الله تعالی ایسا نہ کریں گے کہ اُن میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دیں۔
اس وعدۂ خداوندی کے باوجود پھر حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے خوف الٰہی کا یہ حال تھا کہ ابر اور آندھی کو دیکھ کر پہلی قوموں کے عذاب یاد آ جاتے تھے۔
اسی کے ساتھ ایک نگاہ اپنے حال پر بھی کرنا ہے کہ ہم لوگ ہر وقت گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں اور زلزلوں اور دوسری قسم کے عذابوں کو دیکھ کر بَجائے اس سے متاثر ہونے کے، توبہ، استغفار، نماز وغیرہ میں مشغول ہونے کے، دوسری قسم قسم کی لغو تحقیقات میں پڑ جاتے ہیں۔ (فضائلِ اعمال، حکایات صحابہ، ص ۲۳-۲۴)