دجال کے تین اہم آلات: دولت، عورت اور تفریح (لھو ولعب)
جب دجال دنیا میں ظاہر ہوگا، تو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے تین اہم آلات کو استعمال کرےگا اور وہ تین آلات دولت، عورت اور تفریح ہیں۔
اللہ تعالیٰ اسے بعض ایسے کاموں کو انجام دینے کی طاقت عطا فرمائےگا، جو انسانی قوت سے خارج ہیں اور جو بھی شخص ان کا مشاہدہ کرےگا، وہ دجال کے فتنے سے متاثر ہو جائےگا۔
اللہ تعالیٰ اسے قدرت دےگا کہ وہ بادل سے پانی برسائے اور زمین سے فصلیں اگائے؛ یہاں تک کہ وہ جہاں بھی جائےگا، زمین کی دولت اس کے پیچھے چلےگی، جس طرح شہد کی مکھیاں اپنی رانی کے پیچھے چلتی ہیں۔
جب لوگ اس کے پاس ہر طرح کی دولت دیکھیں گے، تو دولت کی لالچ انہیں دجال کی طرف کھینچ کر لے جائےگی، جس کے بعد وہ اس کے جال اور دھوکے میں پھنس جائیں گے اور اس کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔ بالآخر اِس طرح ان کے ایمان کا خاتمہ ہو جائےگا۔
دجال کے فتنوں کی شدت کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دجال ایک قوم کے پاس آئےگا اور انہیں دعوت دےگا (کہ وہ اسے اللہ مانیں)، تو وہ لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی دعوت کو قبول کر لیں گے۔ پھر وہ آسمان کو حکم دےگا، تو وہ بارش برسائےگا اور زمین کو حکم دےگا، تو وہ فصلیں اگائےگی؛ چنانچہ شام کو ان کے مویشی ان کے پاس اس طرح واپس آئیں گے کہ ان کے کوہان پہلے سے زیادہ اونچے ہوں گے، ان کے تھن پہلے سے زیادہ بھرے ہوں گے اور ان کی ٹانگیں پہلے سے زیادہ موٹی ہوں گی۔ اس کے بعد دجال ایک دوسری قوم کے پاس جائےگا اور انہیں دعوت دےگا (کہ وہ اسے اللہ مانیں)؛ لیکن وہ لوگ اس کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے، تو وہ ان سے منہ موڑ کر چلا جائےگا۔ اس کے بعد وہ لوگ قحط میں مبتلا ہو جائیں گے اور ان کے پاس کچھ بھی مال نہیں بچےگا، پھر دجال ایک بنجر زمین کے پاس سے گزرےگا اور اس سے کہےگا کہ اپنے خزانے نکالو؛ چنانچہ خزانے اس کے پیچھے اس طرح چلیں گے، جیسے شہد کی مکھیاں اپنی رانی کے پیچھے چلتی ہیں۔ (صحيح مسلم، الرقم: ٢٩٣٧)
دجال کے اصل پیروکار
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ دجال کے اصل پیروکار یہودی لوگ، عورتیں اور سود میں ملوث لوگ ہوں گے؛ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دجال کے اکثر پیروکار یہودی لوگ اور (بے دین) عورتیں ہوں گی۔ (مجمع الزوائد، الرقم: ١٥٢٥٠)
ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن (جب دجال کا ظہور ہوگا) اس کے اکثر پیروکار ربا اور سودی معاملات میں ملوث لوگ ہوں گے۔ (السنن الواردة في الفتن للداني، الرقم: ٦٦٤)
سیر وتفریح کا فتنہ
جوں جوں وقت گزر رہا ہے، پوری دنیا میں امت کی دینی حالت بہت زیادہ بگڑ رہی ہے اور مغرب کا نظامِ زندگی ان پر حاوی ہو رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر جگہ مال ودولت سے گہری محبت اور حرص کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ اکثر لوگوں کی زندگی سیر وتفریح اور کھیل تماشوں میں گزر رہی ہے۔
سالوں پہلے اہلِ مغرب نے محسوس کیا کہ لوگوں کے اندر تفریح کا بہت شوق ہے؛ چنانچہ انہوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور ’تفریحی صنعت‘ کا آغاز کیا، جو اب پوری دنیا میں عروج پر ہے اور روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اس ’تفریحی صنعت‘ نے جس تیزی سے ترقی کی ہے اور جس انداز سے مسلسل ترقی کے منازل طے کر رہی ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انسان کے اندر سیر وتفریح اور کھیل تماشوں کی ایک ایسی بھوک ہے، جو مٹنے والی نہیں ہے۔
مزید برآں، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور موبائل فون کی ایجاد نے انسان کے اندر تفریح کی بھوک اور حرص کو اور زیادہ بڑھا دیا ہے؛ چنانچہ جب دجال کا ظہور ہوگا، تو وہ انہی آلات یعنی سیر وتفریح، دولت اور عورتوں کو استعمال کر کے انسان کو گمراہ کرےگا۔
مومن اور کافر میں فرق
جب کوئی اس معاملہ میں غور کرتا ہے، تو اس کے سامنے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’سیر وتفریح کے لیے جینا‘ کفار کی بنیادی سوچ اور ذہنیت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار کے پاس آخرت کا کوئی تصور اور عقیدہ نہیں ہے، اس لیے وہ اسی دنیا کے لیے جیتے ہیں اور اسی دنیا کے لیے مرتے ہیں۔ وہ اس دنیا کو اس حیثیت سے دیکھتے ہیں کہ یہ دنیا ان کے لیے “سب کچھ” اور “سب سے آخری چیز” ہے۔ جب وہ اس دنیا کو اپنی جنت سمجھتے ہیں، تو وہ ہر لمحے کو مزہ اور لطف اندوزی میں بدلنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی زندگی کو کھانے اور لطف اندوزی سے تعبیر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ (سورة محمد: 12)
اور جو لوگ کفر کرتے ہیں، وہ (دنیا میں) لطف اندوز ہوتے ہیں اور جانوروں کی طرح کھاتے ہیں اور (جہنم کی) آگ ان کا ٹھکانہ ہوگی۔
جب کافروں کے نزدیک آخرت، جنت اور جہنم کا کوئی تصور نہیں ہے اور ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کا حساب وکتاب دینے کا کوئی ڈر اور خوف نہیں ہے، تو ان کی یہی ذہنیت ہوگی کہ وہ سیر وتفریح ہی کو سب کچھ سمجھیں اور اسی کے لیے زندگی گزاریں؛ تاہم، کسی مومن کی یہ ذہنیت نہیں ہو سکتی ہے۔
مومن اور کافر اپنے عقیدے اور ذہنیت میں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ مومن کا مقصدِ زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کے اعلیٰ درجات کے لیے کوشش کرنا ہے، اس لیے وہ اس دنیا میں ہر لمحہ آخرت میں اپنے دائمی ٹھکانے کی تیاری میں لگا رہتا ہے۔
خلاصہ بات یہ ہے کہ دجال کے فتنے سے وہی لوگ محفوظ رہیں گے، جو دنیا کی لذت وتفریح کو اپنا مقصد نہیں بناتے ہیں؛ بلکہ آخرت کی تیاری کرتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمیشہ دنیا کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور دنیا ہی کو اپنا مقصدِ زندگی بناتے ہیں، وہ دجال کے پیروکار ہوں گے۔