حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کا اسلام
حضرت صہیب رضی الله عنہ بھی حضرت عمار رضی الله عنہ ہی کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم حضرت ارقم صحابی رضی الله عنہ کے مکان پر تشریف فرما تھے کہ یہ دونوں حضرات علیحدہ علیحدہ حاضرِ خدمت ہوئے اور مکان کے دروازہ پر دونوں اتفاقیہ اکٹھے ہو گئے۔ ہر ایک نے دوسرے کی غرض معلوم کی، تو ایک ہی غرض یعنی اسلام لانا اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے فیض سے مستفید ہونا، دونوں کا مقصود تھا۔
اسلام لائے اور اسلام لانے کے بعد، جو اُس زمانہ میں اس قلیل اور کمزور جماعت کو پیش آنا تھا، وہ پیش آیا۔ ہر طرح ستائے گئے، تکلیفیں پنچائی گئیں۔ آخر تنگ آ کر ہحرت کا ارادہ فرمایا، تو کافروں کو یہ چیز بھی گوارا نہ تھی کہ یہ لوگ کسی دوسری ہی جگہ جا کر آرام سے زندگی بسر کر لیں، اس لیے جس کسی کی ہجرت کا حال معلوم ہوتا تھا، اس کو پکڑنے کی کوشش کرتے تھے کہ تکالیف سے نجات نہ پا سکے۔
چنانچہ ان کا بھی پیچھا کیا گیا اور ایک جماعت ان کو پکڑنے کے لیے گئی۔ انہوں نے اپنا ترکش سنبھالا، جس میں تیر تھے اور ان لوگوں سے کہا کہ دیکھو! تمہیں معلوم ہے کہ میں تم سب سے زیادہ تیر انداز ہوں۔ اتنے ایک بھی تیر میرے پاس باقی رہےگا، تم لوگ مجھ تک نہیں آ سکوگے اور جب ایک بھی تیر نہ رہےگا، تو میں اپنی تلوار سے مقابلہ کروں گا؛ یہاں تک کہ تلوار بھی میرے ہاتھ میں نہ رہے۔ اس کے بعد جو تم سے ہو سکے کرنا، اس لیے اگر تم چاہو، تو اپنی جان کے بدلہ میں اپنے مال کا پتہ بتلا سکتا ہوں، جو مکہ میں ہے اور دو باندیاں بھی ہیں، وہ سب تم لے لو۔
اس پر وہ لوگ راضی ہو گئے اور اپنا مال دے کر جان چھڑائی۔ اسی بارہ میں یہ آیت پاک نازل ہوئی:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ﴿٢٠٧﴾
بعض لوگ ایسے ہیں، جو الله کی رضا کے واسطے اپنی جان کو خرید لیتے ہیں اور الله تعالیٰ بندوں پر مہربان ہیں۔
حضور صلی الله علیہ وسلم اس وقت قبا میں تشریف فرما تھے۔ صورت دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ نفع کی تجارت کی۔
صہیب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم اس وقت کھجور نوش فرما رہے تھے اور میری آنکھ دُکھ رہی تھی۔ میں بھی ساتھ کھانے لگا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ آنکھ تو دکھ رہی ہے اور کھجوریں کھاتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم! اس آنکھ کی طرف سے کھاتا ہوں، جو تندرست ہے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم یہ جواب سن کر ہنس پڑے۔
حضرت صہیب رضی الله عنہ بڑے ہی خرچ کرنے والے تھے؛ حتی کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اُن سے فرمایا کہ تم فضول خرچی کرتے ہو، انہوں نے عرض کیا کہ ناحق کہیں خرچ نہیں کرتا۔
حضرت عمر رضی الله عنہ کا جب وصال ہونے لگا، تو ان ہی کو جنازہ کی نماز پڑھانے کی وصیت فرمائی تھی۔ (فضائلِ اعمال، حکایاتِ صحابہ، ص ۱۸)