باغ محبت – چھتیسویں قسط‎ ‎

ایک عظیم ولی – حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ

حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ اپنے دور کے ایک بڑے محدث اور عظیم ولی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو فنِ حدیث میں اتنا بلند مقام عطا فرمایا تھا کہ بڑے بڑے محدثین جیسے حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ، حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہم نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔

تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے کہ حضرت فضیل رحمہ اللہ تقویٰ کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہونے سے قبل ایک مشہور ڈاکو تھے؛ تاہم، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے گناہوں سے توبہ کرنے اور اپنی زندگی درست کرنے کی توفیق بخشی۔

ذیل میں ان کی توبہ کا واقعہ نقل کیا جا رہا ہے:

ایک موقع پر ایک قافلہ اس راستے سے گزر رہا تھا، جہاں حضرت فضیل رحمہ اللہ لوگوں کو لُوٹتے تھے اور ان کا سامان چھین لیتے تھے۔ قافلہ میں ایک قاری بھی تھے، جو نہایت خوب صورت انداز میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔

جب قافلہ حضرت فضیل رحمہ اللہ کے پاس سے گزرا، تو وہ قاری قرآن مجید کی یہ آیت پڑھ رہے تھے:

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ

کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکرِ الہی کے لیے گڑ گڑائیں اور جُھکیں؟ (سورہ حدید، آیت: ۱۶)

یہ آیت سن کر حضرت فضیل رحمہ اللہ کا دل اس قدر متاثر ہوا کہ انہوں نے فورا اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی اور گناہوں سے سچی پکی توبہ کی۔

اس کے بعد حضرت فضیل رحمہ اللہ نے عبادت اور علمِ دین کی تحصیل میں خوب مجاہدہ کیا؛ یہاں تک کہ ایک ایسا دور آیا کہ بادشاہِ وقت، ہارون رشید بھی ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔

یہ بات منقول ہے کہ ایک دفعہ ہارون رشید حج کے لیے گئے۔ حج کے بعد انہوں نے فضل بن ربیع سے کہا کہ میں اپنے دل میں کمزوری محسوس کر رہا ہوں، اس لیے مجھے اللہ تعالیٰ کے کسی ولی کے پاس لے چلو؛ تاکہ میں ان سے نصیحت حاصل کروں اور ان کی صحبت سے فائدہ اٹھاؤں۔ فضل نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کی خدمت میں تشریف لے جائیں۔

جب وہ حضرت سفیان رحمہ اللہ کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا، تو حضرت سفیان رحمہ اللہ نے بڑی عزت واحترام سے ان کا استقبال کیا۔ ہارون رشید نے ان سے کہا کہ میں آپ کے پاس نصیحت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپ مجھے نصیحت کیجیئے؛ چنانچہ حضرت سفیان رحمہ اللہ نے انہیں کچھ عمومی نصیحتیں کیں۔

آخر میں جب ہارون رشید جانے لگے، تو انہوں نے حضرت سفیان رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے ذمہ کوئی قرض ہے، جس کی ادائیگی کے لیے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں؟ حضرت سفیان رحمہ اللہ نے جواب دیا: ہاں۔ تو ہارون رشید نے فضل کو قرض ادا کرنے کا حکم دیا۔

حضرت سفیان رحمہ اللہ کے یہاں سے جانے کے بعد ہارون رشید فضل کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا کہ میں نے حضرت سفیان رحمہ اللہ سے اتنا فائدہ نہیں اٹھایا، جتنا میں چاہ رہا تھا۔ (شاید ہارون رشید اس لیے مطمئن نہیں ہوئے کہ حضرت سفیان رحمہ اللہ نے ان کی بہت تعظيم وتکریم کی اور انہیں ان کی کسی کمزوری سے آگاہ نہیں کیا)۔

چنانچہ فضل نے ہارون رشید کو مشورہ دیا کہ وہ امام عبد الرزاق رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے جائیں۔ امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے بھی بڑے اعزاز سے ہارون رشید کا استقبال کیا اور ان کی درخواست پر انہیں کچھ عمومی نصیحتیں کیں۔

روانگی سے پہلے ہارون رشید نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کے ذمہ کوئی قرض ہے، جس کی ادائیگی کے لیے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں؟ امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے جواب دیا: ہاں، مجھ پر قرض ہے۔ تو ہارون رشید نے فضل کو قرض ادا کرنے کا حکم دیا۔

پھر جب ہارون رشید وہاں سے رخصت ہوئے، تو انہوں نے فضل سے کہا کہ میں نے امام عبد الرزاق رحمہ اللہ سے اتنا فائدہ حاصل نہیں کیا، جتنا میں چاہ رہا تھا۔ میرے لیے کوئی ایسا آدمی تلاش کرو، جس سے میں کامل طور پر استفادہ کر سکوں، تو فضل نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کی زیارت کے لیے تشریف لے جائیں۔

حضرت فضیل رحمہ اللہ سے ملاقات کے بعد ہارون رشید نے ان سے درخواست کی کہ مجھے کچھ نصیحت کیجیئے۔ حضرت فضیل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ خلیفہ مقرر ہوئے، تو انہوں نے حضرت سالم بن عبد اللہ، حضرت محمد بن کعب اور حضرت رجاء بن حیوۃ رحمہم اللہ کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ خلافت کی ذمہ داری میرے لیے آزمائش ہے؛ لہٰذا مجھے نصیحت کیجیئے۔

حضرت فضیل رحمہ اللہ نے پھر فرمایا: حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو خلافت کے بارے میں اتنی فکر تھی کہ انہوں نے اسے ایک آزمائش سمجھا، جبکہ آپ اسے ایک نعمت سمجھتے ہیں (اور حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی طرح آپ کو فکر نہیں ہے)۔

حضرت فضیل رحمہ اللہ نے انہیں تنبیہ کی کہ اگر انہوں نے امورِ خلافت کو شریعت کے احکام کے مطابق انجام نہیں دیا، تو انہیں جہنم کا عذاب بھگتنا ہوگا۔ اس تنبیہ کا ہارون رشید پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ بے حد رونے لگے۔

اس کے بعد جب ہارون رشید روانہ ہونے لگے، تو انہوں نے حضرت فضیل رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے ذمہ کوئی قرض ہے، جس کو میں آپ کی طرف سے ادا کر دوں؟

حضرت فضیل رحمہ اللہ نے جواب دیا: ہاں، مجھ پر قرضے ہیں، جو میرے رب کے حقوق ہیں۔ اگر آپ چاہیں، تو ان حقوق کی ادائیگی میں میری مدد کر سکتے ہیں۔ جب ہارون رشید نے دیکھا کہ یہ حقوق (یعنی اللہ تعالی کے حقوق) ایسے نہیں ہیں کہ وہ حضرت فضیل رحمہ اللہ کی طرف سے ادا کر سکتے ہیں، تو ان کو ارادہ ہوا کہ وہ حضرت فضیل رحمہ اللہ کو کوئی ہدیہ پیش کریں۔

چنانچہ ہارون رشید نے حضرت فضیل رحمہ اللہ کو پیسے پیش کیے اور کہا کہ یہ ایک ہزار دینار ہیں۔ اسے میری طرف سے تحفہ کے طور پر قبول فرمائیے اور اپنے اہل وعیال پر خرچ کیجیئے۔

حضرت فضیل رحمہ اللہ نے جواب دیا: سبحان اللہ! میں نے تمہیں نجات کا راستہ دکھایا ہے اور آپ مجھے اس کا بدلہ اس طرح دیتے ہیں؟ آپ یہ مال ایسے شخص کو دے رہے ہیں، جس کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ یہ مال اس شخص کو دیں، جس کو اس کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد جب ہارون رشید اور فضل حضرت فضیل رحمہ اللہ کے گھر سے نکلے، تو ہارون رشید نے فضل سے کہا: اے فضل! جب تم اللہ کے کسی ولی سے میری ملاقات کرانا چاہو، تو اِن جیسے آدمی سے میری ملاقات کراؤ۔ بلا شبہ وہ تمام مسلمانوں کے سردار ہیں۔ (من سير أعلام النبلاء ٢/٣٥٨)

ہارون رشید حضرت فضیل رحمہ اللہ سے ان صفات عالیہ کی وجہ سے بے حد متاثر ہوئے تھے، جن کے وہ حامل تھے یعنی آخرت میں حساب کا خوف، اعلیٰ درجے کا تقوی، دنیا سے بے رغبتی، شریعت وسنت پر ثابت قدمی اور بادشاہ کو اس بات کی مخلصانہ نصیحت کہ وہ کس طرح خلافت کے امور کو انجام دے۔

خلاصہ بات یہ ہے کہ ہارون رشید نے اس بات کی گواہی دی کہ حضرت فضیل رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کا مجسم نمونہ تھے۔

Check Also

اتباع سنت کا اہتمام – ۱۰

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ – قسط دوم حضرت مولانا اشرف علی …