علمائے آخرت کی بارہ علامات
امام غزالی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ جو عالِم دنیا دار ہو، وہ احوال کے اعتبار سے جاہل سے زیادہ کمینہ ہے اور عذاب کے اعتبار سے زیادہ سختی میں مبتلا ہوگا اور کامیاب اور الله تعالیٰ کے یہاں مقرب علمائے آخرت ہیں، جن کی چند علامتیں ہیں:
پہلی علامت:
اپنے علم سے دنیا نہ کماتا ہو۔ عالم کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ دنیا کی حقارت کا، اس کے کمینہ پن کا، اس کے مکدّر ہونے کا، اس کے جلد ختم ہو جانے کا، اس کو احساس ہو۔ آخرت کی عظمت، اُس کا ہمیشہ رہنا، اس کی نعمتوں کی عمدگی کا احساس ہو۔
اور یہ بات اچھی طرح جانتا ہو کہ دنیا اور آخرت دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دو سوکنوں کی طرح ہیں، جونسی ایک کو راضی کرےگا، دوسری خفا ہو جائےگی۔ یہ دونوں ترازو کے دو پلڑوں کی طرح سے ہیں، جونسا ایک پلڑا جھکےگا، دوسرا ہلکا ہو جائےگا۔ دونوں میں مشرق، مغرب کا فرق ہے، جونسے ایک سے تو قریب ہوگا، دوسرے سے دور ہو جائےگا۔
جو شخص دنیا کی حقارت کا، اُس کے گدلے پن کا اور اس بات کا احساس نہیں کرتا کہ دنیا کی لذتیں دونوں جہان کی تکلیفوں کے ساتھ منضم ہیں، وہ فاسد العقل ہے۔
مشاہدہ اور تجربہ ان باتوں کا شاہد ہے کہ دنیا کی لذتوں میں دنیا کی بھی تکلیف ہے اور آخرت کی تکلیف تو ہے ہی۔
پس جس شخص کو عقل ہی نہیں، وہ عالم کیسے ہو سکتا ہے؛ بلکہ جو شخص آخرت کی بڑائی اور اس کے ہمیشہ رہنے کو بھی نہیں جانتا ہے، وہ تو کافر ہے۔ ایسا شخص کیسے عالم ہو سکتا ہے، جس کو ایمان بھی نصیب نہ ہو؟
اور جو شخص دنیا اور آخرت کا ایک دوسرے کی ضد ہونے کو نہیں جانتا اور دونوں کے درمیان جمع کرنے کی طمع میں ہے، وہ ایسی چیز میں طمع کر رہا ہے، جو طمع کرنے کی چیز نہیں ہے۔ وہ شخص تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعت سے ناواقف ہے۔
اور جو شخص ان سب چیزوں کو جاننے کے باوجود دنیا کو ترجیح دیتا ہے، وہ شیطان کا قیدی ہے، جس کو شہوتوں نے ہلاک کر رکھا ہے اور بدبختی اس پر غالب ہے، جس کی یہ حالت ہو، وہ علماء میں کیسے شمار ہوگا؟
حضرت داؤد علیہ السلام نے الله تعالیٰ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جو عالِم دنیا کی خواہش کو میری محبت پر ترجیح دیتا ہے، اُس کے ساتھ ادنی سے ادنی معاملہ، میں یہ کرتا ہوں کہ اپنی مناجات کی لذت سے اس کو محروم کر دیتا ہوں (کہ میری یاد میں، میری دعا میں، اس کو لذت نہیں آتی)۔
اے داؤد! ایسے عالم کا حال نہ پوچھ، جس کو دنیا کا نشہ سوار ہو کہ میری محبت سے تجھ کو دور کر دے۔ ایسے لوگ ڈاکو ہیں۔ اے داؤد! جب تُو کسی کو میرا طالب دیکھے، تو اس کا خادم بن جا۔ اے داؤد! جو شخص بھاگ کر میری طرف آتا ہے، میں اس کو جہبذ (حاذق، سمجھدار) لکھ دیتا ہوں اور جس کو جہبذ لکھ دیتا ہوں، اس کو عذاب نہیں کرتا۔
یحییٰ بن معاذ رحمہ الله کہتے ہیں کہ علم وحکمت سے جب دنیا طلب کی جائے، تو ان کی رونق جاتی رہتی ہے۔
سعید بن المسیب رحمہ الله کہتے ہیں کہ جب کسی عالم کو دیکھو کہ اُمراء کے یہاں پڑا رہتا ہے، تو اس کو چور سمجھو۔
اور حضرت عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جس عالم کو دنیا سے محبت رکھنے والا دیکھو، اپنے دین کے بارے میں اس کو مُتّہم سمجھو، اس لیے کہ جس شخص کو جس سے محبت ہوتی ہے، اسی میں گھسا کرتا ہے۔
ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ جس کو گناہ میں لذت آتی ہو، وہ الله کا عارف ہو سکتا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ مجھے اس میں ذرا تردّد نہیں کہ جو شخص دنیا کو آخرت پر ترجیح دے، وہ عارف نہیں ہو سکتا اور گناہ کرنے کا درجہ تو اس سے بہت زیادہ ہے۔
اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ صرف مال کی محبت نہ ہونے سے آخرت کا عالِم نہیں ہوتا، جاہ کا درجہ اور اُس کا نقصان مال سے بھی بڑھا ہوا ہے یعنی جتنی وعیدیں اوپر دنیا کے ترجیح دینے کی اور اس کی طلب کی، گذری ہیں، ان میں صرف مال کمانا ہی داخل نہیں؛ بلکہ جاہ کی طلب مال کی طلب کی بہ نسبت زیادہ داخل ہے، اس لیے کہ جاہ طلبی کا نقصان اور اس کی مضرت مال طلبی سے بھی زیادہ سخت ہے۔ (فضائلِ صدقات، ص ۳۵۲-۳۵۴)