فضائلِ صدقات – ۵

اپنے اعمال کو حقیر سمجھنا

صدقہ دینے کے بارے میں ایک ادب یہ ہے کہ اپنے صدقہ کو حقیر سمجھے، اس کو بڑی چیز سمجھنے سے عجب پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، جو بڑی ہلاکت کی چیز ہے اور نیک اعمال کو برباد کرنے والی ہے۔

حق تعالی شانہ نے بھی قرآنِ پاک میں طعن کے طور پر اس کو ذکر فرمایا ہے؛ چنانچہ ارشاد ہے:

وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ ‎﴿٢٥﴾‏ ثُمَّ أَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا

اور حنین کے دن (بھی تم کو غلبہ دیا تھا) جبکہ (یہ قصہ پیش آیا تھا کہ) تم کو اپنے مجمع کی کثرت سے گھمنڈ پیدا ہو گیا تھا، پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور (کفار کے تیر برسانے سے تمہیں اس قدر پریشانی ہوئی کہ) زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم (میدانِ جنگ سے) منہ بھیر کر بھاگ گئے۔ اس کے بعد اللہ جل شانہ نے اپنے رسول اور مومنین پر تسلی نازل فرمائی اور ایسے لشکر (فرشتوں کے) تمہاری مدد کے لیے بھیجے، جن کو تم نے نہیں دیکھا۔

اس کا قصہ کتبِ احادیث میں مشہور ہے۔ کثرت سے روایات اس قصہ کے بارے میں وارد ہوئی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان المبارک سن ۸ ہجری میں جبکہ حضور اقدس صلی الله علیہ سلم نے مکہ مکرمہ کو فتح فرما لیا، تو قبیلہ ہوازن اور ثقیف پر حملہ کے لیے رمضان ہی میں تشریف لے گئے۔

چونکہ مسلمانوں کی جمعیت اس وقت پہلے غزوات کے لحاظ سے بہت زیادہ ہو گئی تھی، تو اُن میں اپنی کثرت پر عجب پیدا ہوا کہ ہم اتنے زیادہ ہیں کہ مغلوب نہیں ہو سکتے۔ اسی بنا پر کہ حق تعالی شانہ کو گھمنڈ اور عجب بہت ناپسند ہے، ابتداء میں مسلمانوں کو شکست ہوئی، جس کی طرف آیت بالا میں اشارہ ہے کہ تم کو اپنے مجمع کی کثرت پر گھمنڈ پیدا ہوا؛ لیکن مجمع کی کثرت تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔

حضرت عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے پاک رسول نے مکہ مکرمہ فتح کر لیا، تو قبیلہ ہوازن اور ثقیف کے لوگ چڑھائی کر کے آئے اور موضع حنین میں وہ لوگ جمع ہو گئے۔

حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا کہ جب مکہ والے بھی فتح کے بعد مدینہ والوں کے ساتھ مجتمع ہو گئے، تو وہ لوگ کہنے لگے کہ واللہ! اب ہم اکٹھے ہو کر حنین والوں سے مقابلہ کریں گے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کی یہ گھمنڈ کی بات گراں گذری اور ناپسند ہوئی۔

غرض عجب کی وجہ سے یہ پریشانی پیش آئی۔ علماء نے لکھا ہے کہ نیکی جتنی بھی اپنی نگاہ میں کم سمجھی جائےگی، اتنی ہی اللہ تعالی کے یہاں بڑی سمجھی جائےگی اور گناہ جتنا بھی اپنی نگاہ میں بڑا سمجھا جائےگا، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں ہلکا اور کم سمجھا جائےگا یعنی ہلکے سے گناہ کو بھی یہی سمجھے کہ میں نے بہت بڑی حماقت کی، ہرگز ہرگز نہ کرنا چاہیئے تھا۔ کسی گناہ کو بھی یہ نہ سمجھے کہ چلو! اس میں کیا ہو گیا۔ (فضائلِ صدقات، ص ۲۶۶-۲۶۷)

Check Also

فضائلِ اعمال – ۱۰

دوسرا باب: اللہ جل جلالہ وعم نوالہ کا خوف وڈر دین کے ساتھ اس جانفشانی …