قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿٢﴾ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿٣﴾ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿٤﴾ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿٥﴾
آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں سے) کہہ دیجیئے کہ میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی (۱) تمام مخلوقات کے شر سے (۲) اور اندھیری رات کے شر سے، جب وہ پھیل جائے (۳) گرہوں میں پھونک مارنے والیوں کے شر سے (۴) اور حسد کرنے والے کے شر سے، جب وہ حسد کرنے لگے (۵)
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ﴿١﴾ مَلِكِ النَّاسِ ﴿٢﴾ إِلَٰهِ النَّاسِ ﴿٣﴾ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ﴿٤﴾ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ﴿٥﴾ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ﴿٦﴾
آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے) کہہ دیجیئے کہ میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب کی (۱) انسانوں کے بادشاہ کی (۲) انسانوں کے معبود کی (۳) اس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو پیچھے ہٹ جاتا ہے (۴) جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے (۵) خواہ جنّات میں سے ہو یا انسانوں میں سے (۶)
یہ دونوں سورتیں (یعنی سورہ فلق اور سورہ ناس) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں، اسی وجہ سے یہ دونوں سورتیں مدنی سورتیں کہی جاتی ہیں۔
شانِ نزول
ان دونوں سورتوں کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت ترین سحر (جادو) کیا گیا تھا۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جادو کا عمل
ہجرت کے چھٹے سال رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ کا سفر کیا؛ مگر کفارِ مکہ نے انہیں مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اس کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور کفار کے درمیان صلح ہوئی، جس میں یہ شرط رکھی گئی کہ دس سال تک دونوں فریقوں کے درمیان کوئی جنگ یا لڑائی نہیں ہوگی۔ اس صلح کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔
صلح کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم ماہ ذی الحجہ میں مدینہ منورہ واپس آئے۔
ایک ماہ بعد محرم ۷ ہجری میں یہودیوں کا ایک گروہ لبید بن اعصم کے پاس آیا، جو جادو میں بہت زیادہ مہارت رکھتا تھا۔ ان یہودیوں نے اس سے کہا کہ ہم نے کئی دفعہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جادو کرنے اور انہیں قتل کرنے کی کوشش کی؛ لیکن ان پر ہمارے جادو کا کوئی اثر نہیں ہوا؛ چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم آپ سے رجوع کریں؛ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ اس فن کے ماہر ہیں اور اس فن میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
پھر انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے اس کو تین دینار دیئے۔
بعض روایات میں ہے کہ لبید یہودی تھا، جبکہ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ منافق تھا اور بعض روایات کے مطابق وہ مدینہ منورہ کے انصار میں سے تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ الله ان روایات کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے انصار اور یہودیوں کے درمیان قریبی تعلقات تھے، تاہم جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے، تو انصار نے اسلام قبول کر لیا اور یہودیوں سے تعلقات منقطع کر لیے۔ ان میں لبید بن اعصم بھی تھا۔ یہودیوں کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات کی وجہ سے بعض لوگ اسے یہودی سمجھتے تھے۔
لبید قبیلہ بنو زُریق سے تھا۔ وہ اپنے آپ کو مومن ظاہر کرتا تھا اور رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی مجالس میں شرکت کرتا تھا، جبکہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو معلوم تھا کہ وہ منافقین میں سے تھا۔
یہودیوں سے تین دینار لینے کے بعد لبید نے ایک یہودی نوجوان سے رابطہ کیا، جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے گھر کثرت سے آتا جاتا تھا اور آپ کی خدمت کرتا تھا۔ اس نے اس نوجوان لڑکے سے کہا کہ وہ اس کے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مبارک بال لے آئیں اور اس کو اطمینان دلانے کے لیے ایک جھوٹا بہانہ بنایا کہ وہ ان بالوں کو کسی اچھے مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے؛ چنانچہ اس نوجوان نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مبارک بال اور کنگھی لا کر اس کو دے دیئے۔
لبید نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جادو کرنے کے لیے آپ کے مبارک بال اور کنگھی کے دندانے کو استعمال کیا۔ دوسری روایات میں آیا ہے کہ اس نے موم سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تصویر بنائی تھی اور اس میں گیارہ سوئیاں لگائی تھیں۔
لبید بن اعصم کا پورا خاندان ساحر تھا؛ چنانچہ اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر سحر کرنے کے لیے اپنی بیٹیوں سے بھی مدد حاصل کی۔
سحر کرنے کے بعد لبید نے ان چیزوں کو (جن میں سحر کا عمل کیا گیا تھا) مدینہ منورہ میں ذروان نامی کنویں کے اندر ایک پتھر کے نیچے چھپا دیا۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جب جادو کیا گیا، تو آپ بیمار پڑ گئے اور بہت سے دنیوی امور بھولنے لگے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھول جاتے کہ آج ازواج مطہرات میں سے کس کی باری ہے اور دوسری بیوی کے گھر چلے جاتے۔ اسی طرح آپ کی بھوک بھی ختم ہو رہی تھی اور آپ آہستہ آہستہ کمزور ہو رہے تھے؛ البتہ دینی امور پر (جیسے امت تک دین پہنچانا، وحی کو یاد رکھنا وغیرہ ان پر) جادو کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ تقریباً چھ ماہ تک رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر اس بیماری کا اثر رہا۔
جب رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو یہ پریشانی پیش آئی، تو شروع میں آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ کسی بیماری کا اثر ہے؛ چنانچہ آپ نے بغرض علاج پچھنا لگوایا؛ لیکن جب آپ کو صحت میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی، تو آپ کو معلوم ہوا کہ کوئی اور چیز آپ کی صحت پر اثر کر رہی ہے۔
دو فرشتوں کے درمیان مکالمہ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے اپنی بیماری کے دوران گفتگو کی اور ان سے فرمایا کہ میں کافی عرصے سے بیمار ہوں اور میں الله تعالیٰ سے مسلسل دعا کرتا رہا کہ وہ مجھ پر اس کی حقیقی صورتِ حال ظاہر کردے؛ چنانچہ جب میں نیند اور بیداری کے درمیان لیٹا ہوا تھا، تو الله تعالیٰ نے میرے پاس دو فرشتے بھیجے (حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام)۔ ایک میرے سرہانے بیٹھ گئے اور دوسرا میرے پاؤں کی طرف۔
سرہانے والے فرشتے نے دوسرے فرشتے سے پوچھا کہ اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ یہ شخص کس بیماری میں مبتلا ہے؟ دوسرے فرشتے نے جواب دیا: اس پر جادو کا اثر ہے۔
پھر سرہانے والے فرشتے نے دوسرے فرشتے سے پوچھا کہ کس نے یہ جادو کیا ہے؟ دوسرے فرشتے نے جواب دیا: لبید بن اعصم۔
سرہانے والے فرشتے نے دوسرے فرشتے سے مزید پوچھا کہ ان پر جادو کرنے کے لیے کون سی چیزیں استعمال کی گئی ہیں؟ دوسرے فرشتے نے جواب دیا: ان کے بالوں، کنگھی کے دندانوں اور کھجور کے غلاف (جس میں کھجور کا پھل پیدا ہوتا ہے) کو استعمال کیا گیا ہے۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرشتوں کی یہ گفتگو سنی، جس کے ذریعے سے الله تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ان کی حقیقی حالت سے آگاہ کیا تھا اور اسی خواب میں الله تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ بھی بتایا تھا کہ جادو کی چیزیں ایک کنویں میں رکھی گئی ہیں۔
اس کے بعد جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم بیدار ہوئے، تو چار صحابہ کرام (حضرت علی، حضرت عمار، حضرت جبیر بن ایاس اور حضرت قیس بن محصن رضی الله عنہم) کو حکم دیا کہ وہ اس جگہ پر جائیں، جہاں سحر (جادو) رکھا گیا ہے اور اسے نکال دیں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی کنویں کے پاس گئے اور جن چیزوں پر جادو کیا گیا تھا، ان کو کنویں کی گہرائی میں ایک پتھر کے نیچے سے نکالا گیا۔
سورہ فلق اور سورہ ناس کا نزول
اسی موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمان سے اترے اور اپنے ساتھ یہ دونوں سورتیں لائے (یعنی سورہ فلق اور سورہ ناس) جو اس وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئیں۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ ان دونوں سورتوں کی ایک ایک آیت شروع سے آخر تک پڑھیں۔
جوں ہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک ایک آیت کی تلاوت شروع کی، ایک ایک گرہ کھلتی گئی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی موم سے بنائی گئی تصویر سے سوئیاں نکل گئیں۔ جب سوئیاں نکالی جا رہی تھیں، تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو تھوڑا سا درد محسوس ہو رہا تھا؛ لیکن اس کے بعد آپ کو بہت آرام محسوس ہوا۔
بعض احادیث میں مذکور ہے کہ سحر (جادو) کا اثر ختم ہونے کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اتنی زیادہ راحت ملی کہ گویا آپ ایک طویل مدت تک بیڑیوں میں بندھے ہوئے تھے اور بالآخر آپ کو بیڑیوں سے رہائی مل گئی۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے اس کنویں کے درختوں اور پانی کے بارے میں بیان فرمایا کہ گویا اس کے پانی میں مہندی ڈال کر اسے گہرا سیاہ کر دیا گیا تھا اور کنویں میں اگنے والے درخت شیطانوں کے سروں کے مشابہ تھے (یعنی ان درختوں کی شاخیں سانپوں کے سروں کی مانند تھیں، اس لیے کہ اہلِ عرب بعض سانپوں کو ان کی بدصورتی کی وجہ سے شیطانوں کے مشابہ قرار دیتے ہیں)۔ یہ وہ خوفناک اور خطرناک جگہ تھی، جہاں اس جادو کو دفن کیا گیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلی کِردار
جب جادو کا اثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زائل ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت آرام محسوس ہوا، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ لوگوں کو بلائیں اور اس کا اعلان کریں کہ فلاں شخص نے آپ پر جادو کیا تھا اور لوگوں کے سامنے سحر کو خاکستر کریں۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ اس شخص (لبید بن اعصم) کو مدینہ منورہ سے نکال دیں۔ تاہم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً جواب دیا: اے عائشہ! اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دے دی ہے، (اس لیے مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے) اور مجھے یہ پسند نہیں کہ لوگوں میں شر اور فتنہ پھیلے۔
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کو بطورِ انتقام قتل کر دیں؛ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عذاب اسے ملےگا، وہ زیادہ سخت ہوگا۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کنویں کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ یہ تھی کہ آپ اپنے نفس کے معاملہ میں کسی سے کبھی انتقام نہیں لیتے تھے؛ بلکہ آپ ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ عفو ودرگزر کا معاملہ کرتے تھے، جو آپ کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے؛ یہاں تک کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرتے تھے، جنہوں نے آپ پر ظلم کیا۔
لبید بن اعصم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں جایا کرتا تھا؛ کیونکہ وہ منافقین میں سے تھا۔ اس کے باوجود اس واقعہ کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس سے اس کے بارے میں گفتگو نہیں کی اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی قسم کا الگ برتاؤ کیا۔
سورہ فلق اور سورہ ناس کے نزول کا مقصد
یہ دونوں سورتیں، جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، اس وقت نازل ہوئیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں سورتوں کو بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اور علاج کے لیے نازل فرمایا اور بالعموم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی حفاظت کے لیے۔
اسی لیے بعض احادیث میں سورہ فلق اور سورہ ناس کو معوّذتین (حفاظت کی دو سورتیں) کہا گیا ہے۔
علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ پہلی سورت (یعنی سورہ فلق) بالخصوص تمام جسمانی پریشانیوں اور آفات سے حفاظت کے لیے نازل کی گئی تھی اور دوسری سورت (یعنی سورہ ناس) بالخصوص تمام روحانی نقصانات اور آفات سے حفاظت کے لیے نازل کی گئی تھی۔