صلہ رحمی
حضرت عبد الله بن ابی اوفی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عرفہ کی شام کو حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حلقہ کے طور پر چاروں طرف بیٹھے تھے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجمع میں کوئی شخص قطع رحمی کرنے والا ہو، تو وہ اٹھ جائے، ہمارے پاس نہ بیٹھے۔ سارے مجمع میں سے صرف ایک صاحب اُٹھے، جو دور بیٹھے ہوئے تھے اور پھر تھوڑی دیر میں واپس آکر بیٹھ گئے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ میرے کہنے پر مجمع میں سے صرف تم اُٹھے تھے اور پھر آ کر بیٹھ گئے، یہ کیا بات ہے؟
انہوں نے عرض کیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد سن کر میں اپنی خالہ کے پاس گیا تھا، اس نے مجھ سے قطع تعلق کر رکھا تھا۔میرے جانے پر اس نے کہا کہ تُو خلافِ عادت کیسے آ گیا؟ میں نے اُس سے آپ کا ارشاد مبارک سُنایا۔ اس نے میرے لیے دعائے مغفرت کی۔ میں نے اس کے لیے دعائے مغفرت کی (اور آپس میں صلح کر کے واپس حاضر ہو گیا)۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم نے بہت اچھا کیا، بیٹھ جاؤ۔ اس قوم پر الله کی رحمت نازل نہیں ہوتی، جس میں کوئی قطع رحمی کرنے والا ہو۔
فقیہ ابو اللیث رحمہ الله فرماتے ہیں: اس قصہ سے معلوم ہوا کہ قطع رحمی اتنا سخت گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے اس کے پاس بیٹھنے والے بھی الله کی رحمت سے محروم ہو جاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ جو شخص اس میں مبتلا ہو، وہ اس سے توبہ کرے اور صلہ رحمی کا اہتمام کرے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے کہ کوئی نیکی جس کا ثواب بہت جلد ملتا ہو، صلہ رحمی سے بڑھ کر نہیں ہے اور کوئی گناہ جس کا وبال دنیا میں اس کے علاوہ ملے، جو آخرت میں ملےگا، قطع رحمی اور ظلم سے بڑھ کر نہیں ہے۔
متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ قطع رحمی کا وبال آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی پہونچتا ہے اور آخرت میں برے ٹھکانے کا تو خود اس آیت شریفہ ہی میں ذکر ہے۔
وَالَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَهْدَ اللّٰہِ مِنۡ بَعۡدِ مِیۡثَاقِه وَیَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِه اَنۡ یُّوۡصَلَ وَیُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۙ اُولٰٓئِکَ لَهمُ اللَّعۡنَة وَلَهمۡ سُوۡٓءُ الدَّارِ ﴿۲۵﴾
اور جو لوگ الله تعالی کے معاہدہ کو اس کی پختگی کے بعد توڑتے ہیں اور الله تعالی نے جن تعلقات کے جوڑنے کا حکم فرمایا ہے، ان کو توڑتے ہیں اور دنیا میں فساد کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں، جن پر لعنت ہے اور ان کے لیے اس جہان میں خرابی ہے۔
فقیہ ابو اللیث رحمہ الله نے ایک عجیب قصہ لکھا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک نیک شخص، امانت دار، خراسان کے رہنے والے تھے۔ لوگ ان کے پاس اپنی امانتیں رکھوایا کرتے تھے۔
ایک شخص ان کے پاس دس ہزار اشرفیاں امانت رکھوا کر اپنی کسی ضرورت سے سفر میں چلا گیا۔ جب وہ سفر سے واپس آیا، تو ان خراسانی کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے اہل وعیال سے اپنی امانت کا حال پوچھا، انہوں نے لا علمی ظاہر کی۔ ان کو بڑا فکر ہوا کہ بہت بڑی رقم تھی۔
علمائے مکہ مکرمہ سے کہ اتفاق سے اس وقت ایک مجمع ان کا موجود تھا، مسئلہ پوچھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے؟
انہوں نے کہا کہ وہ آدمی تو بڑا نیک تھا۔ ہمارے خیال میں جنتی آدمی تھا۔ تُو ایک ترکیب کر، جب آدھی یا تہائی رات گذر جائے، تو زمزم کے کنویں پر جا کر اس کا نام لے کر پکار کر کے اس سے دریافت کر۔
اس نے تین دن تک ایسا ہی کیا، وہاں سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے پھر جا کر ان علماء سے تذکرہ کیا۔ انہوں نے انا للله پڑھا اور کہا کہ ہمیں تو یہ ڈر ہو گیا کہ وہ شاید جنتی نہ ہو۔ تُو فلاں جگہ جا، وہاں ایک وادی ہے، جس کا نام “برہوت” ہے، اس میں ایک کنواں ہے، اُس کنویں پر آواز دے۔
اس نے ایسا ہی کیا، وہاں سے پہلی ہی آواز میں جواب ملا کہ تیرا مال ویسا ہی محفوظ رکھا ہے۔ مجھے اپنی اولاد پر اطمینان نہ ہوا، اس لیے میں نے فلاں جگہ مکان کے اندر اس کو گاڑ دیا ہے۔ میرے لڑکے سے کہہ کہ تجھے اس جگہ پہونچا دے، وہاں سے زمین کھود کر، اس کو نکال لے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور مال مل گیا۔
اس شخص نے وہاں بہت تعجب سے اُس سے یہ بھی دریافت کیا کہ تُو تو بہت نیک آدمی تھا۔ تُو یہاں کیوں پہونچ گیا؟
کنویں سے آواز آئی کہ خراسان میں میرے کچھ رشتہ دار تھے، جن سے میں نے قطع تعلق کر رکھا تھا۔ اسی حال میں میری موت آ گئی، اس کی گرفت میں میں یہاں پکڑا ہوا ہوں۔ (فضائلِ صدقات، ص 196-197)