ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
يطلع عليكم الآن رجل من أهل الجنة، فطلع سيدنا سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه (مسند أحمد، الرقم: ١٢٦٩٧، مسند البزار، الرقم: ٦٨٣٦)
ابھی تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آئےگا، جو جنتیوں میں سے ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لیے جنت کی بشارت کا باعث عمل
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آئےگا، جو جنتیوں میں سے ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے، وضو کا پانی ان کی ڈاڑھی سے ٹپک رہا تھا اور وہ بائیں ہاتھ میں جوتا لیے ہوئے تھے۔
دوسرے اور تیسرے دن بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی اعلان فرمایا اور دونوں دن حضرت سعد رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے چاہا کہ وہ کچھ وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی صحبت میں رہیں؛ تاکہ وہ ان کے اخلاق وافعال دیکھ سکیں اور اُس خاص خوبی یا عمل کو جان سکیں، جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنت کی بشارت دی ہے۔
چنانچہ تیسرے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے تشریف لے گئے، تو حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے بات کرنے کے لیے ان کے پیچھے چلے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے ان سے فرمایا کہ میرے اور میرے والد کے درمیان کچھ اختلاف ہوا ہے، جس کی وجہ سے میں نے قسم کھائی ہے کہ میں تین دن تک گھر واپس نہیں جاؤں گا۔ کیا آپ مجھے اپنے گھر میں تین دن قیام کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دے دی اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ان کے پاس رہنے لگے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے تین دنوں تک ان کے اعمال وافعال کو دیکھا؛ مگر انہیں کوئی ایسا عمل نظر نہیں آیا، جسے وہ غیر معمولی سمجھتے ہوں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو رات کو تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے ہوئے نہیں دیکھا؛ بلکہ انہوں نے دیکھا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ صرف فجر کے وقت بیدار ہوتے ہیں؛ تاہم انہوں نے یہ دیکھا کہ رات میں جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی آنکھ کھلتی اور وہ اپنے بستر پر ایک طرف سے دوسری طرف کروٹ بدلتے، تو دوبارہ سونے سے پہلے کچھ ذکر کرتے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ میں ایک نمایاں خوبی یہ دیکھی کہ وہ (لوگوں کے بارے میں) صرف اچھی بات کرتے تھے (یعنی کسی کے بارے میں کوئی بری بات ان کی زبان سے نہیں نکلتی تھی)۔
بالآخر جب تین دن گزر گئے اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی زندگی میں کوئی ایسی انوکھی بات نہیں دیکھی، جس کو وہ جنت کی بشارت کا سبب قرار دے سکے، تو انہوں نے سوچا کہ وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو حقیقی صورتِ حال بتائیں اور ان سے جنت کی بشارت کا سبب پوچھیں۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اور ان سے فرمایا:
اے اللہ کے بندے! حقیقت یہ ہے کہ میرے اور میرے والد کے درمیان کوئی اختلاف یا جھگڑا نہیں تھا؛ بلکہ آپ کے ساتھ رہنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل تین دن تک یہ ارشاد فرمایا کہ ابھی تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آئےگا، جو جنتیوں میں سے ہے اور تینوں دن آپ ہی تشریف لے آئے۔ یہی وجہ تھی کہ میرے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میں آپ کے ساتھ کچھ دن رہوں اور آپ کے اعمال وافعال اور خوبیوں کو دیکھ کر آپ کی پیروی کروں؛ مگر میں نے آپ کو بہت زیادہ نفل اعمال کرتے ہوئے نہیں دیکھا، تو مجھے بتائیئے کہ آخر آپ کا وہ کونسا عمل ہے، جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے؟
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں صرف وہی عمل کرتا ہوں، جو آپ نے دیکھا ہے (یعنی میری زندگی میں اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے)۔
یہ سن کر حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما جانے لگے۔ جب وہ جانے لگے، تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں واپس بلایا اور فرمایا:
میں صرف وہی عمل کرتا ہوں، جو آپ نے دیکھا ہے؛ البتہ ایک اور عمل (جو میرے لیے جنت کی بشارت کا سبب ہو سکتا ہے) یہ ہے کہ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے لیے کوئی بغض نہیں رکھتا ہوں اور اگر اللہ تعالی نے کسی کو کوئی نعمت عطا کی ہے، تو اس پر حسد نہیں کرتا ہوں۔
یہ سن کر حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہی وہ عمل ہے، جس کی وجہ سے آپ اس بلند مقام پر پہونچے ہیں اور ہم لوگ اس پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ (انظر مسند أحمد، الرقم: ١٢٦٩٧، تاريخ دمشق ٢٠/٣٢٧، مسند البزار، الرقم: ٦٨٣٦)