فضائلِ صدقات – ۲

اللہ تعالی کی نعمتیں

ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت (سورہ تکاثر) تلاوت فرمائی اور جب یہ پڑھا:

ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ‎﴿٨﴾‏

پھر اس دن، نعمتوں سے سوال کیے جاؤگے۔

تو ارشاد فرمایا کہ تمہارے رب کے سامنے تم سے ٹھنڈے پانی کا سوال کیا جائےگا، مکانوں کے سایہ کا سوال کیا جائےگا (کہ ہم نے دھوپ اور بارش سے بچنے کے لیے سایہ عطا کیا تھا)، پیٹ بھرائی کھانے سے سوال کیا جائےگا، اعضاء کے صحیح سالم ہونے سے سوال کیا جائےگا (کہ ہم نے ہاتھ، پاؤں، آنکھ، ناک، کان وغیرہ صحیح سالم عطا کئے تھے، ان کا کیا حق ادا کیا؟)، میٹھی نیند سے سوال کیا جائےگا؛ حتّی کہ اگر تم نے کسی عورت سے منگنی چاہی اور کسی اور شخص نے بھی اُس عورت سے منگنی چاہی اور اللہ تعالی نے تم سے اُس کا نکاح کرا دیا، تو اس سے بھی سوال ہوگا کہ یہ حق تعالیٰ شانہ کا تم پر احسان تھا کہ بیٹی والوں کے دل میں حق تعالیٰ شانہ نے یہ بات ڈالی کہ وہ تم سے اس کا نکاح کریں، دوسرے سے نہ کریں۔

اور ان چیزوں کو جو اس حدیث شریف میں ذکر کی گئیں، غور کرنے سے آدمی اندازہ کر سکتا ہے کہ اس پر ہر وقت اللہ تعالی شانہ کے کس قدر احسانات ہیں اور ان چیزوں میں غریب، امیر، سب ہی شریک ہیں۔ کون شخص غریب سے غریب، فقیر سے فقیر ایسا ہے، جس پر ہر وقت اللہ تعالیٰ شانہ کے بے انتہا انعامات نہ برستے ہوں؟ ایک صحت اور اعضاء کی تندرستی ہی ایسی چیز ہے اور اس سے بڑھ کر ہر وقت سانس کا آتے رہنا ہی ایک ایسی نعمت ہے، جو ہر وقت ہر زندہ کو میسر ہے۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی، تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سی نعمتوں میں ہم ہیں؟ جَو کی روٹی وہ بھی آدھی بھوک ملتی ہے، پیٹ بھر کر نہیں ملتی، تو اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ آپ ان سے فرمائیں: کیا تم جوتہ نہیں پہنتے؟ ٹھنڈا پانی نہیں پیتے؟ یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہیں۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن، سب سے پہلے جن نعمتوں کا سوال ہوگا، وہ بدن کی صحت اور ٹھنڈا پانی ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ جن نعمتوں کا سوال ہوگا، وہ روٹی کا ٹکڑا ہے، جس کو کھائے اور وہ پانی ہے، جس سے پیاس بُجھائے اور وہ کپڑے کا ٹکڑا ہے، جس سے بدن چھپائے۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ سخت دھوپ میں، دوپہر کے وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں تشریف لے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی، وہ بھی اپنے گھر سے تشریف لائے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اس وقت کیسے آنا ہوا؟

انہوں نے فرمایا کہ بھوک کی شدت نے مجبور کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اُس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اسی بے چینی نے مجھے بھی مجبور کیا۔

یہ دونوں اسی حال میں تھے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دولت کدہ سے تشریف لائے اور ان سے دریافت کیا کہ تم اس وقت کہاں آئے؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم! بھوک کی شدت نے مجبور کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی مجبوری سے میں بھی آیا ہوں۔

یہ تینوں حضرات اُٹھ کر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لے گئے، وہ خود تو موجود نہیں تھے۔ ان کی اہلیہ نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ ابو ایوب کہاں ہیں؟ بیوی نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم! ابھی آتے ہیں۔

اتنے میں ابو ایوب رضی اللہ عنہ آ گئے اور جلدی سے کھجور کا ایک خوشہ توڑ کر لائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سارا خوشہ کیوں توڑ لیا؟ اس میں سے پکی، پکی کیوں نہ چھانٹ لیں؟

انہوں نے عرض کیا: حضرت! اس خیال سے توڑ لیا کہ پکی اور اَدْھکَچْری اور خشک وتر ہر قسم کی سامنے ہو جائیں، جس کی رغبت ہو۔ ان حضرات نے ہر قسم کی کھجوریں اُس خوشہ میں سے نوش فرمائیں۔

اتنی دیر میں حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے ایک بکری کا بچہ ذبح کر کے جلدی سے کچھ حصہ آگ پر بھونا، کچھ ہانڈی میں پکایا اور ان حضرات کے سامنے لا کر رکھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذرا سا گوشت ایک روٹی میں لپیٹ کر ابو ایوب رضی اللہ عنہ کو دیا کہ یہ فاطمہ کو دے آؤ، اُس نے بھی کئی دن سے ایسی کوئی چیز نہیں کھائی، وہ جلدی سے دے آئے۔ ان حضرات نے گوشت، روٹی کھایا۔

اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ کی اتنی نعمتیں کھائیں) گوشت اور روٹی اور کچی کھجوریں، پکی کھجوریں، یہ فرماتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور ارشاد فرمایا کہ یہی وہ نعمتیں ہیں، جن سے قیامت میں سوال ہوگا۔

صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ سن کر بڑا شاق ہوا (کہ ایسی سخت بھوک کی حالت میں یہ چیزیں بھی باز پُرس کے قابل ہیں)، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک ہیں اور اس کی تلافی یہ ہے کہ جب شروع کرو، تو بسم اللہ کے ساتھ شروع کرو اور جب ختم کرو، تو یہ دعا پڑھو:

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هُوَ اشْبَعَنَا وَأَنْعَمَ عَلَيْنَا وَأَفْضَلَ

تمام تعریفیں صرف اللہ ہی کے لیے ہیں کہ اُسی نے ہم کو (محض اپنے فضل سے) پیٹ بھر کر عطا کیا اور ہم پر انعام فرمایا اور بہت زیادہ عطا کیا۔ (فضائلِ صدقات، ص 294-296)

Check Also

فضائلِ اعمال – ۲۰

صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہنسنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ اور …