دعا کی سنتیں اور آداب – ۵

(۱) دعا کے شروع میں الله تعالی کی حمد وثنا بیان کریں اور اس کے بعد نبی کریم صلی الله وسلم پر درود بھیجیں، پھر انتہائی عاجزی وانکساری اور ادب واحترام کے ساتھ الله تعالی کے سامنے اپنی ضرورتیں پیش کریں۔

حضرت فضالہ بن عبید رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص (مسجد میں) آیا۔ اس نے نماز پڑھی، پھر اس نے دعا کی: اے الله! مجھے بخش دیجیئے اور مجھ پر رحم فرمائیے، تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس سے کہا: اے نماز پڑھنے والے! تم نے (دعا کرنے میں) جلدی کی۔ جب تم نماز سے فارغ ہو کر (دعا کرنے کے لیے) بیٹھ جاؤ، تو پہلے الله تعالیٰ کی ان کی شان کے مطابق تعریف کرو اور مجھ پر درود بھیجو، پھر الله تعالیٰ سے دعا کرو۔ راوی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ایک دوسرے شخص نے نماز ادا کی۔ نماز پڑھنے کے بعد اس نے دعا کی۔ (دعا میں) اس نے الله تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجا، تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اے نماز پڑھنے والے! دعا کرو، تمہاری دعا قبول کی جائےگی (کیونکہ تم نے دعا کے آداب کے مطابق دعا کی)۔ (سنن الترمذی، الرقم: 3476)

حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی دعا کا ارادہ کرے، تو اس کو چاہیئے کہ وہ سب سے پہلے الله تعالی کی ایسی تعریف کرے، جس کے وہ حق دار ہیں، پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجے، اس کے بعد دعا کرے؛ کیونکہ (اس طریقہ سے دعا کرنے میں) کامیابی کی زیادہ امید ہے (یعنی اس بات کی زیادہ امید ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائےگی؛ کیونکہ اس نے دعا کے آداب کے مطابق دعا کی)۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، الرقم: 8780)

(۲) دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو اپنے سینہ تک اٹھائیں (یعنی سینہ کے سامنے رکھیں)۔

حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک الله تعالی نہایت کریم اور سخی ہیں، (ان کے کرم اور سخاوت کا یہ حال ہے کہ) ان کو اس بات سے شرم آتی ہے کہ وہ اس شخص کو خالی ہاتھ (نا مراد) واپس کر دیں، جو ان کے سامنے اپنے ہاتھوں کو اٹھاتا ہے۔ (سنن الترمذی، الرقم: 3556)

(۳) جب دعا کے وقت ہاتھ اٹھائیں، تو اپنی ہتھیلیوں کا رخ آسمان کی طرف رکھیں۔

حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اللہ تعالی سے دعا مانگو، تو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کا رخ آسمان کی طرف رکھ کر مانگو اور اپنے ہاتھوں کے اوپر والے حصے کو آسمان کی طرف کر کے نہ مانگو (یعنی دعا کے وقت اپنی ہتھیلیوں کا رخ نیچے کی طرف  نہ رکھیں)۔ (سنن أبي داود، الرقم: ١٤٨٦)

(۴) دعا کے دوران دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھیں۔

(۵) جب دعا کریں، تو اللہ تعالی کے سامنے اپنی پوری عاجزی، بے بسی اور کمزوری کا اظہار کریں اور مکمل انکساری اور تواضع کے ساتھ اللہ تعالی سے پست آواز میں اپنی ضرورتیں مانگیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَاذۡکُرۡ رَّبَّکَ فِیۡ نَفۡسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیۡفَة وَّدُوۡنَ الۡجَهرِ مِنَ الۡقَوۡلِ بِالۡغُدُوِّ وَالۡاٰصَالِ وَلَا تَکُنۡ مِّنَ الۡغٰفِلِیۡنَ ﴿۲۰۵﴾

اور اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح وشام اور اہل غفلت میں شمار مت ہونا۔

(۶) شک اور بے یقینی کیفیت کے ساتھ دعا نہ کریں۔ مثال کے طور پر اس طرح نہ کہیں: اے اللہ! اگر تُو میری ضرورت پوری کرنا چاہے، تو میری ضرورت پوری فرما۔

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دعا کرتے وقت) تم میں سے کوئی (یہ) نہ کہے: اے اللہ! میری مغفرت فرما، اگر تُو چاہے۔ مجھ پر رحم فرما، اگر تو چاہے۔ مجھے رزق عطا فرما، اگر تو چاہے؛ بلکہ پورے یقین کے ساتھ اللہ تعالی سے (اپنی ضرورت کا) سوال کرے، کیونکہ اللہ تعالی اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ فرماتے ہیں۔ کوئی بھی شخص ان کو مجبور نہیں کر سکتا ہے۔ (صحيح البخاري، الرقم: ٧٤٧٧)

(۷) دعا کرتے وقت اللہ تعالی سے رحمت کی پوری امید رکھیں اور قبولیت کے یقین کے ساتھ دعا کریں۔

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی سے دعا کرو اس حال میں کہ تمہیں دعا کی قبولیت کا یقین ہو اور یہ بات یاد رکھو کہ اللہ تعالی غافل اور بے پرواہ دل کی دعا قبول نہیں فرماتے ہیں۔ (سنن الترمذي، الرقم: ٣٤٧٩)

(۸) اپنے دل ودماغ کو اللہ تعالی کی طرف متوجہ رکھیں اور صرف اسی سے امیدیں لگائیں۔ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور پر بھروسہ نہ رکھیں اور نہ یہ گمان کریں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور آپ کی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔

Check Also

زکوٰۃ کی سنتیں اور آداب – ۱

زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ زکوٰۃ سن ۲ …