رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
لا يحبك إلا مؤمن، ولا يبغضك إلا منافق (أي حب سيدنا علي رضي الله عنه من علامات الإيمان، بشرط الإيمان بجميع أمور الدين الأخرى). (جامع الترمذي، الرقم: ٣٧٣٦)
تجھ سے مومن ہی محبت کرےگا اور تجھ سے منافق ہی بغض رکھےگا۔ (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہے، بشرطیکہ ایمان کے تمام عقائد پر بھی ایمان رکھا جائے)۔
حضرت علی رضی الله عنہ کا الله تعالٰی کے وعدے پر کامل یقین
ایک دفعہ ایک فقیر حضرت علی رضی الله عنہ کے پاس آیا اور ان سے کچھ مانگا۔ حضرت علی رضی الله عنہ اپنے دونوں بیٹوں میں سے کسی ایک (حضرت حسن رضی الله عنہ یا حضرت حسین رضی الله عنہ) کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا کہ اپنی والدہ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ میں نے آپ کے پاس چھ درہم رکھے تھے، تو ان میں سے ایک درہم دے دیجیے (تاکہ میں مانگنے والے کو دے دوں)۔
بیٹا اپنی والدہ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کے پاس گیا اور یہ پیغام لے کر واپس آیا کہ میری والدہ نے کہا کہ آپ نے آٹا خریدنے کے لیے ان کے پاس چھ درہم رکھے تھے۔
یہ سن کر حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا: بندے کا ایمان اس وقت تک صحیح اور کامل نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ اس چیز پر زیادہ بھروسہ رکھے، جو الله تعالیٰ کے خزانے میں ہے، اس کے مقابلہ میں جو اس کے پاس موجود ہے (یعنی بندہ الله تعالیٰ اور اس کے وعدوں پر بھروسہ رکھنا چاہیئے کہ جب وہ صدقہ دےگا، الله تعالی اس کو خیر وبرکت سے نوازیں گے اور اس کو فقر وفاقہ کے خوف سے اپنے مال کو نہیں روکنا چاہیئے)۔
حضرت علی رضی الله عنہ نے پھر اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنی والدہ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ مجھے چھ درہم دے دیں (تاکہ میں مانگنے والے کو دے دوں)؛ چنانچہ وہ اپنی والدہ کے پاس گئے اور چھ درہم لے کر واپس آئے۔ حضرت علی رضی الله عنہ نے اس کو مانگنے والے کے حوالے کر دیا۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک شخص حضرت علی رضی الله عنہ کے پاس سے ایک اونٹ لے کر گزرا، جس کو وہ بیچنا چاہ رہا تھا۔ حضرت علی رضی الله عنہ نے اس سے پوچھا کہ تم یہ اونٹ کتنے میں بیچ رہے ہو؟
اس شخص نے جواب دیا: ایک سو چالیس درہم میں۔
حضرت علی رضی الله عنہ نے اس سے اونٹ خرید لیا اور اونٹ خریدنے کے بعد اس شخص سے فرمایا کہ اونٹ یہاں باندھ دو اور ہم تمہیں بعد میں قیمت ادا کر دیں گے۔ وہ شخص اونٹ کو وہاں باندھ کر چلا گیا۔
اس کے بعد ایک اور شخص وہاں سے گزرا۔ اس نے اونٹ کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ اونٹ کس کا ہے؟ حضرت علی رضی الله عنہ نے جواب دیا کہ یہ میرا ہے۔ اس شخص نے پوچھا: کیا آپ اسے بیچ رہے ہیں؟ حضرت علی رضی الله عنہ نے جواب دیا: ہاں۔ تو اس شخص نے پوچھا کہ آپ اسے کتنے میں بیچ رہے ہیں؟
حضرت علی رضی الله عنہ نے جواب دیا: دو سو درہم میں۔ اس شخص کو قیمت اچھی لگی اور اس نے پیشکش قبول کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس کو آپ سے خرید لیا، پھر اس نے حضرت علی رضی الله عنہ کو دو سو درہم ادا کیے اور اپنا اونٹ لے کر روانہ ہو گیا۔
اس کے بعد حضرت علی رضی الله عنہ اس شخص کے پاس گئے، جس نے ان سے اونٹ بیچا تھا اور اس کو ایک سو چالیس درہم ادا کر دیئے جو ان پر واجب الاداء تھے۔
پھر حضرت علی رضی الله عنہ ساٹھ درہم لے کر (جو آپ کو بطور نفع حاصل ہوئے تھے) اپنی زوجہ محترمہ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کے پاس آئے (اور انہیں دے دیئے)۔
جب حضرت فاطمہ رضی الله عنہا نے ساٹھ درہم دیکھے، تو انہوں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ یہ پیسہ کہاں سے آیا؟
حضرت علی رضی الله عنہ نے جواب دیا کہ یہ وہی ہے جس کا الله تعالیٰ نے ہم سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک کے ذریعہ مندرجہ ذیل آیت میں وعدہ فرمایا ہے۔
پھر حضرت علی رضی الله عنہ نے قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:
مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَة فَلَه عَشۡرُ اَمۡثَالِها
جو شخص ایک نیکی لے کر آئےگا، اسے دس گنا اجر ملےگا۔ (سورہ انعام: آیت 160)
دوسرے لفظوں میں یوں کہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ نے حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کو سمجھایا کہ جب انہوں نے چھ درہم الله کے راستے میں خرچ کیے، تو الله تعالیٰ نے ان کو اس کے بدلے دس گنا زیادہ اجر عطا فرمایا؛ چنانچہ ان کے پاس چھ درہم کی جگہ (جو انہوں نے سائل کو دیئے تھے) ساٹھ درہم ہیں۔ (حیاۃ الصحابہ ۲/۱۹۱)