ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے خصوصی دعا کرتے ہوئے فرمایا:
رحم الله عمر، يقول الحق (بكل صراحة) وإن كان مرا (للناس)، تركه الحق وما له صديق (يراعيه عند قول الحق) (سنن الترمذي، الرقم: ٣٧١٤)
اللہ تعالی عمر پر رحم فرمائے! وہ (علی الاعلان) حق بات کہتے ہیں؛ اگرچہ وہ (حق بات لوگوں کو) کڑوی لگے۔ حق بات کہنے نے ان کو اس حال میں چھوڑا کہ ان کا کوئی دوست نہیں ہے (جس کی رعایت وہ کرتے ہیں حق بات کہنے کے وقت)۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور نماز کی حد درجہ فکر
جس صبح کو حضرت عمر رضی الله عنہ کو خنجر مارا گیا، حضرت مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ جب آپ پہنچے، تو دیکھا کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کو ایک چادر سے ڈھانپ کر رکھا گیا ہے اور آپ بے ہوش ہیں۔
حضرت مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ نے حاضرین سے دریافت کیا: یہ کس حال میں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ بے ہوش ہیں، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔
چوں کہ فجر کا وقت ختم ہونے کے قریب تھا، اس لیے حضرت مسور بن مخمرہ رضی الله عنہ نے حاضرین سے فرمایا: ان کو “نماز” کہ کر بیدار کرو؛ کیوں کہ تم ان کو کسی ایسی چیز کے ذریعہ بیدار نہیں کر سکتے ہو، جو نماز سے زیادہ اہم اور ضروری ہو۔
چنانچہ انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! “نماز”۔ جوں ہی انہوں نے یہ کہا، حضرت عمر رضی الله عنہ فورا بیدار ہوئے اور فرمایا: ہاں، الله کی قسم، اس شخص کے لیے اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے، جو نماز چھوڑ دے، پھر حضرت عمر رضی الله عنہ نے نماز ادا کی، جب کہ ان کے زخم سے خون بہ رہا تھا۔ (المعجم الاوسط، الرقم: ۸۱۸۱)